رائد کو طبی عملے نے پیدائش کے وقت لڑکی قرار دیا تھا (فوٹو، ٹوئٹر)
لڑکی کے طور پر19 برس تک زندگی گزارنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ تو پیدائشی طور پر لڑکا ہے لڑکی نہیں۔
حقیقت حال سامنے آنے پر سعودی معاشرے میں متعدد سوالات کھڑے ہوگئے۔ کئی لوگ شکوک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔ باپ نے طبی عملے کی غلطی اور اصلاح حال کے لیے عدالتی کارروائی کا مطالبہ کر دیا۔
اخبار 24 کے مطابق ’رائد‘ کی پیدائش کے وقت اس کہانی کا آغاز ہوا تھا۔ ہسپتال کے عملے نے اسے لڑکی قرار دیا تھا۔ اسی حیثیت میں وہ 19 برس تک لڑکی کے طور پر زندگی گزارتا رہا۔ حال ہی میں یہ بات ریکارڈ پر آئی کہ وہ لڑکی نہیں بلکہ لڑکا ہے۔
رائد کے والد عبداللہ الشبیلی نے بتایا کہ پیدائش کے وقت ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ وہ لڑکی ہے۔ رائد کی عمر جب 13، 14 برس ہوئی تو ایک بار پھر ڈاکٹروں سے رابطہ کیا۔
ماہرامراض نسواں لیڈی ڈاکٹر نے ہمیں تسلی دی کہ بعض لڑکیوں میں بلوغت کی علامات بعد میں ظاہر ہوتی ہیں۔
مہینوں ہسپتالوں کے چکر لگاتے رہے۔ 19 برس کی عمر میں جا کر جدید ترین ایکسرے ٹیکنالوجی کی رپورٹ سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ رائد لڑکا ہے لڑکی نہیں۔
الشبیلی نے کہا کہ دو برس سے زیادہ عرصے سے وہ اپنے بیٹے کے حقوق کے حصول کے لیے بھاگ دوڑ کررہا ہے۔ عدالت سے فیصلے کا منتظر ہے۔
متاثرہ والد کا کہنا تھا کہ ان ڈاکٹروں کو جنہوں نے رائد کو لڑکا ہونے کے باوجود لڑکی ظاہر کیا اس بھیانک غلطی کی سزا دی جائے۔
زچہ و بچہ امور کی کنسلٹنٹ ’مہا النمر‘ نے کہا کہ اس قسم کے مسائل اس وقت پیدا ہوجاتے ہیں جب جنین کے جسمانی اعضا کی شکل و صورت واضح نہیں ہوتی۔
مہا النمر نے توجہ دلائی کہ جدید دور میں جبکہ میڈیکل سائنس کافی ترقی کرچکی ہے صورتحال تبدیل ہوگئی ہے۔
نومولود کی جنس کا تعین نہ ہونے کی صورت میں ایکسرے کیا جاتا ہے۔ ماں کے خون سے نمونہ لے کر نومولود کی صنف متعین کردی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں امنیٹک سیال مادے کی مدد سے بھی صنف کا تعین کرلیا جاتا ہے۔
اگر پیدائش کے بعد یہ نومولود کی صنف واضح نہ ہورہی ہو تو ایسی صورت میں اس کے اہل خانہ کو مطلع کردیا جاتا ہے اور کروموسوم ٹیسٹ کے ذریعے ابتدائی مرحلے میں ہی نومولود کی صنف کا پتہ لگالیا جاتا ہے پھر جسمانی اعضا کو صحیح شکل اور روپ دینے کے لیے مناسب ہارمونز دیے جاتے ہیں۔
النمر نے کہا کہ اگر صنف کی نشاندہی کے لیے تشخیص میں تاخیر ہوجائے تو ایسی صورت میں ذہنی اور سماجی علاج سے شروعات کی جاتی ہے جسمانی علاج بھی ہوتا ہے صنف کی اصلاح کا آپریشن بھی ہوتا ہے۔
قانونی مشیر محمد الوھیبی نے بتایا کہ سعودی عرب کا عدالتی نظام طبی عملے کی اس قسم کی غلطیوں سے متاثرہ شخص کو پہنچنے والے ذہنی اور جسمانی نقصانات کے معاوضے کے مطالبے کا حق دیتا ہے۔
الوھیبی نے بتایا کہ قصور وار کو چھ ماہ تک قید اور پچاس ہزار ریال تک جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے یا پھر دونوں میں سے کوئی ایک بھی ہو سکتی ہے۔ یہ سزا سلطانی حق کے تحت ہے جہاں تک متاثرہ شخص کا معاملہ ہے تو وہ خود کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کے لیے مالی معاوضے کا بھی مطالبہ کرسکتا ہے اور ذمہ دار طبی عملے کو جیل بھجوانے کی کارروائی کا بھی مجاز ہے۔