Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی احتساب بیورو اور چیئرمین نیب کا مستقبل کیا ہو گا؟

وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت میں احتساب کے ادارے نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کے مستقبل کا فیصلہ جلد متوقع ہے۔
موجودہ وزیراعظم اور ان کی پارٹی کے ارکان ماضی میں نیب پر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہونے کا الزام عائد کرکے اس کے چیئرمین کو متنازع شخص قرار دیتے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ موجودہ چیئرمین نیب کی تعیناتی پاکستان پیپلز پارٹی کی مشاورت سے مسلم لیگ ن کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ہی 8 اکتوبر 2017 کو کی تھی۔
منگل کو حکمران جماعت ن لیگ کے سینیئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے ایک بار پھر نیب اور اس کے چیئرمین پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اس ادارے کے خاتمے پر زور دیا ہے۔
جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال اپنی مدت اکتوبر 2021 میں پوری کر چکے ہیں مگر پی ٹی آئی حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے نئے چیئرمین کی تعیناتی تک ان کے کام جاری رکھنے کی گنجائش نکالی تھی۔ تاہم اپوزیشن نے اس آرڈیننس کی سخت مخالفت کی تھی۔
قومی احتساب بیورو (نیب) ترمیمی آرڈیننس 2021 وفاقی کابینہ کی منظوری اور صدر مملکت پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کے دستخط کے بعد اکتوبر 2021 سے نافذالعمل ہے۔
اس آرڈیننس کے نفاذ کے بعد جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال بطور چیئرمین نیب اپنے عہدے کی مدت ختم ہونے کے باوجود نئے چیئرمین کے تعینات ہونے تک موجودہ عہدے پر برقرار رہیں گے۔

نئی حکومت میں نیب کا مستقبل کیا ہوگا؟

مسلم لیگ ن کے موجودہ وزیراعظم شہباز شریف اور دو سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی نیب کی حراست میں رہ چکے ہیں۔ اسی طرح  نئی حکمران جماعت کی اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر آصف زرداری اور ان کی پارٹی کے کئی سینئر رہنما بھی نیب کی حراست میں رہ چکے ہیں۔

قانونی ماہرین کے مطابق آرڈیننس میں ’ناقابل توسیع‘ کا لفظ خذف ہونے کا مطلب ہے کہ اب عہدہ مدت کی قید سے آزاد ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ان دونوں جماعتوں نے موجودہ چیئرمین نیب کی غیر جانبداری پر سوال اٹھایا ہے اور نیب کے ادارے کے سیاسی استعمال پر شدید تنقید کر رکھی ہے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ نیب کا صرف ایک حل ہے اس کو ختم کرکے اس کے اہلکار جنہوں نے لوگوں کو لوٹا ہے ان کا احتساب کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ نیب کی عدالتوں اور تفتیش میں کیمرے لگائیں کہ عوام کو پتا چلے کہ یہ تماشا کیا ہے۔ میں آج بھی کہتا ہوں کے مسلم لیگ ن کے خلاف کیس چلیں اور کیمرے لگا کر عوام کو دکھائیں کہ یہ کرتے کیا ہیں؟‘
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نیب کا چیئرمین بتائے کہ اپنے دور میں اور پچھلے 23 سال میں اس نے کتنے سیاستدانوں کو پکڑا ہے، کتنی ان سے برآمدگی ہوئی ہے اور کتنے کیس ثابت ہو کر مجرم بنے ہیں؟
ان کے مطابق  نیب صرف سیاست کے لیے استعمال ہوا ہے اگر احتساب کرنا ہے تو ملک کے اندر احتساب کا نظام موجود ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ موجودہ چیئرمین نیب براہ راست عمران خان سے ہدایت لے کر مخالفین کے خلاف مقدمے بناتے تھے مگر عمران خان اور ان کے وزرا کے خلاف کرپشن کا ایک کیس نہیں بننے دیا۔
چونکہ موجودہ حکمران جماعتوں نے نیب ترمیمی آرڈیننس  کو شدت سے مسترد کیا تھا اس لیے توقع ہے کہ موجودہ حکومت اور پارلیمنٹ نیب ترمیمی آرڈیننس کی توثیق نہیں کرے گی اس طرح یہ قانون اپنی موت آپ مر جائے گا۔
تاہم اپوزیشن نے نیب قوانین میں ترمیم کر کے اس کے سیاسی مقاصد ختم کرنے کی تجاویز دے رکھی تھیں۔
شاہد خاقان عباسی کے بیانات کے بعد اب واضح ہے کہ نئی حکومت نیب کے حوالے سے وسیع پیمانے پر اصلاحات کی کوشش کرے گی تاہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی باقاعدہ تجاویز سامنے نہیں آئی ہیں۔

تحریک انصاف کے دور حکومت میں قومی احتساب بیورو پر جانبداری کے الزامات عائد کیے گئے۔ فائل فوٹو: اے پی پی

نیب کے موجودہ چیئرمین کا برقرار رہنا تقریبا ناممکن ہے کیونکہ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی نظر میں وہ انتہائی متنازع ہیں۔ اس طرح اگلے چند ماہ میں ان کو فارغ کیا جا سکتا ہے۔

موجودہ چیئرمین نیب کو کتنے عرصے کی توسیع دی گئی؟

گزشتہ سال جاری کیے گئے آرڈینیس میں موجودہ چیئرمین نیب کی مدت توسیع کا تعین نہیں کیا گیا بلکہ موجودہ چیئرمین نیب کو تحفظ دیا گیا ہے کہ جب تک نئے چیئرمین نیب کا تقرر نہیں ہو جاتا تب تک جاوید اقبال ہی چیئرمین نیب کے عہدے پر برقرار رہیں گے۔
اس عہدے کی مدت چار سال ہے اور نیب آرڈیننس 1999 شق بی کے مطابق عہدے کی مدت بڑھائی نہیں جا سکتی۔ اس لیے نئے آرڈیننس میں متعلقہ شق میں ترمیم کی گئی۔
قانونی ماہرین کے مطابق آرڈیننس میں ’ناقابل توسیع‘ کا لفظ خذف ہونے کا مطلب ہے کہ اب عہدہ مدت کی قید سے آزاد ہے۔

نیب ترمیمی آرڈیننس میں کیا تبدیلیاں کی گئیں تھیں؟

نیب ترمیمی آرڈیننس 2021 میں نیب کے چیئرمین کی تعیناتی کے لیے صدر مملکت کا کردار بڑھایا گیا تھا۔
صدارتی ترمیمی آرڈیننس جاری ہونے سے پہلے نیب آرڈیننس میں لکھا تھا کہ چیئرمین نیب کی تعیناتی کے لیے لیڈر آف دی ہاؤس یعنی وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن کے درمیان ’بامقصد مذاکرات‘ کے بعد ہی چیئرمین نیب تعینات ہوگا۔

نیب ترمیمی آرڈیننس کے تحت مقدمات کے لیے فیصلے چھ ماہ میں کرنے کا کہا گیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اس معاملے میں فریقین کی طرف سے دیے گئے تین، تین ناموں پر غور ہوگا جس میں سے کسی ایک پر اتفاق کرنا ضروری ہے۔
نیب کے ترمیمی آرڈیننس میں یہ تبدیلی کی گئی ہے اور صدر کو اس میں شامل کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اب صدر مملکت وزیر اعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے ساتھ نیب کے چیئرمین کے لیے مختلف ناموں پر غور کریں گے اور اگر دونوں کے درمیان کسی ایک نام پر اتفاق نہ ہوا تو یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا جائے گا جو اس بارے میں فیصلہ کرے گی۔
اس سے پہلے ماضی میں جتنے بھی چیئرمین نیب مقرر ہوئے ہیں ان میں صدر کا کردار صرف نوٹیفکیشن جاری کرنے کی حد تک محدود تھا جبکہ اس ترمیمی آرڈیننس میں صدر کو نہ صرف مشاورت میں کردار دیا گیا ہے بلکہ پارلیمانی کمیٹی کا کردار بھی پہلی مرتبہ سامنے آیا ہے۔
اسی طرح نئے قانون میں  چیئرمین نیب کے اختیارات کو محدود کر دیا گیا ہے۔
نیب آرڈیننس سنہ 1999 میں اختیارات کے ناجائز استعمال کی کوئی تشریح نہیں کی گئی تھی یعنی اگر کسی نے قواعد کی بھی خلاف ورزی کی ہے تو اس کو اختیارات کے ناجائز استعمال کے زمرے میں لاتے ہوئے اور اس کی نیت کو درست تسلیم نہ کرتے ہوئے اس شخص کو نہ صرف گرفتار کیا جاتا بلکہ اس کے خلاف تحقیقات کا بھی آغاز کر دیا جاتا۔
ترمیمی آرڈیننس میں یہ کہا گیا ہے کہ جب تک یہ بات ثابت نہ ہو جائے کہ مذکورہ شخص نے یہ کام ذاتی مفاد میں کیا ہے تو اس وقت تک اس کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔
اس ترمیمی آرڈیننس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کسی نے اچھی نیت سے کام شروع کیا اور اس کے مطلوبہ نتائج نہیں نکل سکے تو اس کے خلاف بھی کارروائی نہیں ہو گی۔
اس ترمیمی آرڈیننس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیب کی عدالتوں میں جب کسی کے خلاف ریفرنس دائر ہو جائے تو وہ چھ ماہ میں اس کا فیصلہ کریں جبکہ اس سے پہلے نیب عدالتوں کو ایسی کوئی ہدایات نہیں دی گئی تھیں اور عدالتی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ پانچ پانچ برس تک احتساب عدالتوں سے مقدمات کے فیصلے نہیں ہوتے تھے۔

شیئر: