سری لنکا میں پیٹرول کے لیے رکشہ ڈرائیور کا 12 گھنٹے انتظار
سری لنکا میں پیٹرول کے لیے رکشہ ڈرائیور کا 12 گھنٹے انتظار
منگل 31 مئی 2022 7:39
سری لنکا میں معاشی صورت حال پر حکومت کے خلاف شدید احتجاج بھی ہوتا رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
سری لنکا کے معاشی بحران کی چکی میں پسنے والوں میں ایسی خاتون رکشہ ڈرائیور بھی شامل ہیں جن کو پیٹرول حاصل کرنے کے لیے 12 گھنٹے سے زائد قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سری لنکا آج کل تاریخ کے بدترین معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے۔
43 سالہ لاسندا دیپتی کے رکشے کی ایندھن بتانے والی سوئی جونہی نیچے کی طرف جاتی ہے وہ کوئی سواری بٹھانے سے قبل گیس سٹیشن کا رخ کرتی ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ وہاں کیا حالات ہوتے ہیں۔
دو کروڑ 20 لاکھ کی آبادی والے ملک میں خواتین رکشہ ڈرائیور مشکل سے ہی دیکھنے کو ملتی ہیں تاہم دیپتی سات برس سے اپنے پانچ افراد پر مشتمل کنبے کو پالنے کے رکشہ چلا رہی ہے۔
رکشے کی سواریوں کے لیے وہ مقامی ایپ ’پِک می‘ ایپ کا استعمال کرتی ہیں۔
ان کی ماہانہ آمدنی 50 ہزار سری لنکن روپے کے لگ بھگ ہے تاہم اب اس کا آدھے سے زیادہ حصہ صرف ایندھن کی ہی نذر ہو جاتا ہے۔
دیپتی کہتی ہیں کہ ’میرے کام کا زیادہ تر وقت پیٹرول بھروانے کے لیے لگی قطار میں ہی صرف ہو جاتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ میں تین بجے لائن میں کھڑی ہوئی اور رات دو بجے جا کے پیٹرول حاصل کیا۔‘
وہ کولمبو کے مضافاتی علاقے گوناپولا کے دو کمروں کے چھوٹے سے گھر میں اپنی والدہ اور تین چھوٹے بھائیوں کے ساتھ رہتی ہیں۔
دیپتی نے بتایا کہ مئی کے دوران ہی انہیں ایک بار پیٹرول حاصل کرنے کے لیے ڈھائی روز تک لائن میں کھڑا ہونا پڑا تھا۔
’میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ بتا سکوں کہ وہ کس قدر خوفناک صورت حال تھی، میں اکثر رات کو خود کو محفوظ بھی تصور نہیں کرتی مگر کیا کروں کوئی اور راستہ بھی نہیں۔‘
آج کل ان کا معمول یہ ہے کہ صبح اٹھ کر پانی بوتل اٹھاتی ہیں اور رکشے پر سوار ہونے سے قبل دعا بھی مانگتی ہیں۔ تاہم روانہ ہونے کے بعد ان کا اولین مشن سواری سے زیادہ پیٹرول ڈھونڈنا ہوتا ہے۔
سری لنکا میں اکتوبر 2021 سے پیٹرل کی قیمت میں 259 فیصد اضافہ ہو چکا ہے جبکہ کچھ روز قبل ہی حکومت کی جانب سے سبسڈی میں مزید کمی کی گئی ہے۔
سری لنکا میں جاری بحران نے کورونا وبا کے دوران سر اٹھایا تھا کیونکہ اس کی وجہ سے وہاں کی معیشت کا اہم ذریعہ سیروسیاحت بری طرح متاثر ہوا جبکہ غیرملکی کارکنوں کی ترسیلات کا سلسلہ بھی رک گیا جبکہ انہی دنوں حکومت کی جانب سے بعض ایسے ٹیکس لگائے گئے جن سے معشیت لڑکھڑا گئی۔
صورت حال مزید خراب ہونے پر عوام نے حکومت کے خلاف احتجاج بھی ہوا۔
نئے وزیراعظم رانیل وکریمے سنگھے، جو کہ ملک کے وزیر خزانہ بھی ہیں، نے اگلے چھ ہفتوں میں بجٹ پیش کرنے کی تیاری کر لی ہے جس میں دو سال کا فلاحی پروگرام بھی شامل ہے۔
ان کی پالسییوں کے حوالے سے امید کی جا رہی ہے کہ ان میں آئی ایم ایف سے بات چیت بھی شامل ہو گی اور قرضے کا پیکیج حاصل کیا جائے گا۔
تاہم اس کے باوجود بھی دیپتی کچھ زیادہ پرامید نہیں ہیں۔ اپنی بچائی ہوئی رقم سے ایڈوانس دے کر خریدی گئی کار انہوں نے پچھلے بیچ دی تھی کیونکہ قسط ادا کرنے سے قاصر ہو گئی تھیں۔
ان کے بھائی کا رکشہ، جس کو دیپتی چلاتی ہیں، اچھی حالت میں نہیں ہے۔ اس کی مرمت کا کام ہونے والا ہے جس کو وہ مشکل سے ہی سنبھال پا رہی ہیں۔
دیپتی اپنے تین ماہ کی نواسی سے ملنا چاہتی ہیں مگر انہیں یقین نہیں ہے کہ وہ 170 کلومیٹر کا سفر کر پائیں گی، کیونکہ پیٹرول نہیں مل رہا اور ان کی بیٹی متارا میں رہتی ہیں۔
’میں گھر والوں کے لیے مشکل سے آٹا اور سبزیاں لاتی ہوں۔ میں وہ ادویات لانے سے قاصر ہوں جن کی میری ماں کو ضرورت ہے۔‘
انہوں نے آہ بھرتے ہوئے کہا ’مجھے کچھ معلوم نہیں کہ آگے ہمارا کیا ہو گا۔‘