Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میت کے پوسٹ مارٹم کے لیے کیا فیملی کی اجازت ضروری ہے؟

سابق پولیس سرجن ڈاکٹر قرار عباسی کے مطابق میڈیکو لیگل آفیسر پوسٹ مارٹم کرتا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان تحریک انصاف کے منحرف رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین کی آخری رسومات کی ادائیگی سے قبل ان کی میت کے پوسٹ مارٹم کرانے پر تنازع پیدا ہوا۔
اہلخانہ میت کا پوسٹ مارٹم کرانے سے انکاری تھے جبکہ پولیس کا مؤقف تھا کہ موت کی وجہ جاننا قانونی طور پر ضروری ہے۔
پوسٹ مارٹم کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے اور کیا لواحقین اس سے انکار کر سکتے ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ماہر قانون حسان صابر کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر پاکستان کا قانون بالکل واضح ہے۔
’ضابطہ فوجداری کی دفعہ 174 اور پولیس رولز 1934 کے ضابطے میں قرار دیا گیا ہے کہ جب ایک شخص غیر فطری موت مرتا ہے یا جس کی موت کی وجہ مشکوک ہو تو اس لاش کا قبضہ فوری طور پر پولیس لے گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ پوسٹ مارٹم اور ضروری قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد لاش ورثا کے حوالے کی جائے گی تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پوسٹ مارٹم مجاز پولیس آفیسر یا مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ماہر قانون حسان صابر کے مطابق عدالت نے مزید قرار دیا کہ پوسٹ مارٹم کے لیے میڈیکل آفیسر کو لاش دیتے وقت پولیس کی ذمہ داری ہے وقوعہ کے بارے جو بھی رپورٹس تیار ہوئی ہوں وہ بھی میڈیکل آفیسر کے حوالے کی جائیں۔
سابق پولیس سرجن کراچی ڈاکٹر قرار عباسی کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق کسی بھی شہری کی موت کے بعد اس کی لاش سرکاری پراپرٹی ہوتی ہے۔
’موت کی وجوہات کا معلوم ہونا ضروری ہوتا ہے۔ عام طور پر موت کی وجہ ہسپتال سے معلوم ہو جاتی ہے یا پھر اس کے جاری علاج کی رپورٹس سے موت کی وجہ معلوم ہو جاتی ہے لیکن اچانک موت یا قتل کی صورت میں قانون کے مطابق دفعہ 174 کی کارروائی کی جاتی ہے اور مرنے کی وجہ کے تعین کے لیے پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے۔‘
حسان صابر کا کہنا ہے کہ  اگر مرنے والے کا پوسٹ مارٹم نہ کیا جائے اور تدفین کے بعد کوئی دعویدار سامنے آئے اور الزام عائد کر دے کہ مرنے والے کو قتل کیا گیا ہے ایسے میں قانون کو مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور قبر کشائی کر کے مجسٹریٹ کی موجودگی میں پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے۔

ماہر قانون حسان صابر کے مطابق پوسٹ مارٹم کے معاملے پر پاکستان کا قانون بالکل واضح ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ڈاکٹر قرار عباسی کے مطابق میڈیکو لیگل آفیسر پوسٹ مارٹم کرتا ہے۔ اس کے آغاز میں باڈی کا ابتدائی معائنہ کیا جاتا ہے اور تفصیلات نوٹ کی جاتی ہے۔
’کئی بار باہر سے جسم کے معائنے کے بعد رپورٹ دی جاتی ہے جبکہ کئی کیسز میں جسم کے اعضا کے نمونے حاصل کیے جاتے ہیں اور ورثا کی اجازت سے ضرورت پیش آنے پر انہیں محفوظ کیا جاتا ہے۔ کیس کی نوعیت کے اعتبار سے مکمل پوسٹ مارٹم کے بجائے جسم کے کسی مخصوص حصے کا پوسٹ مارٹم بھی کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں موجود قانون کے مطابق پولیس کو مرنے والے کے مرنے کی وجہ جاننے کا مکمل اختیار حاصل ہونے کے باوجود کئی کیسز لواحقین تحریری طور پر انتظامیہ کو میت کا پوسٹ مارٹم نہ کرنے کا کہتے ہیں۔
عامرلیاقت حسین کے کیس میں بھی ایسا ہی ہوا اور ان کے اہلخانہ نے انتظامیہ اور پولیس سے میت کا پوسٹ مارٹم نہ کرنے کے لیے کہا۔

شیئر: