Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اتحادی حکومت نے عمران خان کا بلین ٹری منصوبہ ختم کیوں نہیں کیا؟

گذشتہ مالی سال میں بلین ٹری منصوبے کے لیے 14 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ (فوٹو:کلائمیٹ چینج منسٹری)
پاکستان کی موجودہ اتحادی حکومت نے عمران خان کے 10 بلین ٹری سونامی پروگرام کو جاری رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے 2023-2022 کے بجٹ میں اس منصوبے کے لیے 9 ارب 45 کروڑ 80 لاکھ روپے مختص کیے ہیں۔
 تاہم نئی حکومت کو اب تک منصوبے کی غیر شفافیت سے متعلق 14 شکایات موصول ہوئی ہیں جن کی نہ صرف محکمانہ تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں بلکہ معاملہ نیب کو بھیجنے پر غور ہو رہا ہے۔  
بجٹ دستاویز کے مطابق گذشتہ مالی سال میں اس منصوبے کے لیے 14 ارب روپے مختص کیے گئے تھے تاہم وزارت خزانہ کی طرف سے 9 ارب 55 کروڑ 50 لاکھ روپے جاری کیے گئے ہیں۔ موجودہ حکومت نے سابق حکومت کی طرف سے جاری کی گئی رقم کے مطابق رقم بجٹ میں مختص کر دی ہے۔
وزارت موسمیاتی تبدیلی کے اعلٰی حکام نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ 10 بلین ٹری سونامی منصوبہ بنیادی طور 2017 کے گرین پاکستان پروگرام کا حصہ ہے جس کے لیے اس وقت ساڑھے چار ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔
 بعد ازاں تحریک انصاف کی حکومت نے صوبہ خیبر پختونخوا کے بلین ٹری منصوبے کی طرز پر 10 بلین ٹری سونامی منصوبے میں تبدیل کر دیا اور اس کے لیے 125 ارب روپے مختص کرنے کا اعلان کیا۔   
موجودہ حکومت کی جانب سے اس منصوبے کو جاری رکھنے کی بنیادی وجہ اگرچہ اس کی افادیت ہے تاہم ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ منصوبہ مختلف عالمی ڈونر اداروں کے تعاون، وفاقی اور صوبائی وسائل سے چل رہا ہے۔ اسے بیک جنبش قلم ختم کرنا ممکن نہیں تھا اور اگر ایسا کیا جاتا تو یہ عالمی ذمہ داریوں سے راہ فرار ہوتا۔ 

سابق وزیراعظم نے کہا تھا کہ دس بلین درخت پاکستان میں لگائے جائیں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

حکام نے بتایا ہے کہ اس منصوبے کی افادیت سے متعلق اگرچہ بہت سے عالمی ادارے اپنی رائے دے چکے ہیں اور وزارت موسمیاتی تبدیلی کی تعریف کرچکے ہیں لیکن قومی سطح پر اس حوالے سے اب تک 14 شکایات موصول ہوئی ہیں جو غیر شفافیت سے متعلق ہیں جن کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ نئی وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان اس حوالے سے متعدد اجلاس بھی بلا چکی ہیں۔

10 بلین ٹری سونامی منصوبہ درحقیقت ہے کیا؟ 

پوری دنیا بالخصوص پاکستان جیسے ممالک دن بدن رونما ہوتی موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ جنگلات کی کٹوتی، بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ جنگلات میں کمی اور نئی عمارتوں کی تعمیر اور جدید صنعتی دنیا ہے۔ 
پاکستان میں موسمیاتی تغیرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں بارشیں کبھی معمول سے بہت کم اور کبھی بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ جنگلات میں لگنے والی آگ اگرچہ انسانی شاخسانہ ہوسکتی ہے لیکن اس میں موسمیاتی تبدیلیوں کے عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔   
پاکستان اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور گذشتہ کچھ برسوں کے دوران تعمیراتی شعبے میں ہونے والی پیش رفت کی وجہ سے جنگلات میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔   
اسی تناظر میں سب سے پہلے 2013 میں خیبر پختونخوا میں اس وقت کی تحریک انصاف کی حکومت نے بلین ٹری سونامی منصوبہ شروع کیا۔ 2017 میں وفاقی حکومت نے گرین پاکستان منصوبہ شروع کیا جسے 2018 میں 10 بلین ٹری سونامی منصوبے کا نام دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت 2030 تک پاکستان میں 10 ارب درخت لگائے جانے ہیں۔   
پروجیکٹ ڈائریکٹر حسن علی سکھیرا نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس منصوبے کا پہلا مرحلہ 2019 سے 2022 تک تھا جو کورونا کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو گیا اور اب اس کو 2023 تک بڑھا دیا گیا ہے۔ 
پہلے مرحلے میں 3 اعشاریہ 296 ملین درخت لگائے جانا تھے جبکہ اس منصوبے کا ایک اور حصہ جنگلات کی بحالی بھی ہے۔ منصوبے کے لیے مجموعی طور پر 125 ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے جو سالانہ بنیادوں پر اس کے مختلف منصوبوں پر خرچ کیا جائے گا۔

حسن علی سکھیرا کے مطابق منصوبے کا پہلا مرحلہ کورونا کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس منصوبے کے اخراجات عالمی ادارے، وفاقی و صوبائی حکومتیں مل کر برداشت کر رہی ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبوں کو نصف رقم فراہم کی جاتی ہے جبکہ باقی نصف صوبے اپنے وسائل سے خرچ کرتے ہیں۔   
حسن علی کے مطابق کورونا کی وجہ سے درخت لگانے کی سرگرمیاں متاثر ہوئیں اور طے شدہ ہدف حاصل کرنے میں پوری طرح کامیابی نہیں ہوسکی۔ 2023 تک تین ارب 30 کروڑ درخت لگائے جانا تھے اور اب تک ایک ارب 60 کروڑ درخت ہی لگائے جا سکے ہیں۔ سب سے زیادہ سندھ نے 63 فیصد، خیبر پختونخوا نے 50 فیصد ہدف حاصل کیا ہے۔  

10 بلین ٹری منصوبے کی عالمی سطح پر پذیرائی   

اگرچہ پاکستان میں بڑی تعداد میں درخت لگانے کا یہ منصوبہ اس رفتار سے آگے نہیں بڑھا جس کی شروع میں توقع کی جا رہی تھی تاہم اقوام متحدہ، ورلڈ اکنامک فورم، ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک اور آئی ایم ایف کے علاوہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سمیت متعدد عالمی رہنما اس پروگرام کی تعریف کر چکے ہیں۔
حال ہی میں جب سعودی عرب نے اپنا گرین انیشیٹیو پروگرام لانچ کیا تو وہاں کے حکام نے اس منصوبے سے تجربہ حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔

بلین ٹری پروجیکٹ کی تکمیل سے کیا فوائد حاصل ہوں گے؟

ماہرین کے مطابق اگر یہ منصوبہ اپنے تمام اہداف حاصل کرتے ہوئے 2030 کو تکمیل تک پہنچتا ہے تو اس کے تحت پاکستان میں 4 لاکھ 67 ہزار 500 ہیکٹرز پر درخت لگ جائیں گے۔ جس سے پاکستان کے اوسط درجہ حرارت میں ایک سے پانچ ڈگری تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔  
شہروں کے اندر میاواکی جنگلات پر توجہ دینے سے شہروں میں خالی جگہوں پر بڑی تعداد میں درخت لگا کر کاربن پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔  
اس منصوبے کے اہم اہداف میں جہاں ایک ارب درخت لگانا شامل ہے وہیں جنگلی حیات کا تحفظ و بحالی، پانی کے ذخائر میں اضافہ، جنگلات کے لیے موزوں مٹی پر تحقیق اور انتخاب شامل ہیں۔ اس سے پاکستان میں سیلاب، خشک سالی اور ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل پر قابو پانے میں مدد بھی ملے گی اور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں بھی آسانی ہوگی۔

2017 میں وفاقی حکومت نے گرین پاکستان منصوبہ شروع کیا جسے 2018 میں 10 بلین ٹری سونامی منصوبے کا نام دیا گیا ہے۔ (فائل فوٹو)

اس منصوبے کے تحت سندھ اور بلوچستان میں 16 ہزار 500 ہیکٹرز مینگرووز کے تحفظ اور بحالی کو بھی یقینی بنایا جا رہا ہے جس سے خطے میں سمندری حیات کے محفوظ بنایا جا سکے گا۔ اس کے اثرات نہ صرف پاکستان بلکہ علاقائی سطح پر ہوں گے۔ 

شفافیت کیسے یقینی بنائی جا رہی ہے؟

اس منصوبے میں شفافیت کو یقینی بنانے اور یہ دیکھنے کے لیے کہ جتنے درخت لگانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ درست ہیں بھی یا نہیں، وزارت موسمیاتی تبدیلی نے مختلف اداروں کی خدمات حاصل کی ہیں۔ 
مارچ 2021 میں ایف او اے، آئی یو سی این اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ذریعے سروے کرایا گیا۔ اس سروے میں منصوبے پر پیش رفت کو تسلی بخش قرار دیا گیا تاہم وزارت نے رواں سال کے شروع میں ایک اور تفصیلی سروے کرایا ہے جس کی رپورٹ دسمبر 2022 میں منظر عام پر آئے گی۔
دوسری جانب وزارت کے اعلٰی حکام نے منصوبے کی شفافیت کے حوالے سے آنے والی عوامی شکایات کے بعد سیٹلائٹ سروے اور تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے کا بھی فیصلہ کیا ہے جو آنے والی شکایتوں کی روشنی میں تحقیقات میں معاون ثابت ہوگا۔

شیئر: