انگریزوں نے برصغیر میں چائے متعارف کروائی تھی (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے وفاقی وزیر احسن اقبال کی طرف سے چائے کم استعمال کرنے کے مشورہ پر لوگوں نے ان کا خوب شغل لگایا ہے۔یہ بات ان کے گلے ہی پڑ گئی۔ چائے نوشوں نے ہاہاکار مچائی۔ مزے مزے کے تبصرے ہوئے۔
چائے کی پیالی میں اٹھے اس طوفان سے میرا ذہن اس زمانے کی طرف گیا جب انگریز دور میں لاہوریوں کو زبردستی چائے کی لت لگائی گئی۔ مختلف حیلوں سے انھیں اس مشروب کا خوگر بنایا گیا۔ اس بارے میں جو چند حکایتیں ذہن میں آئیں، انھیں بیان کرتے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ یہ پروڈکٹ کامیاب بنانے کے لیے کیسے کیسے جتن کیے گئے۔
سب سے پہلے سندھی کے نامور فکشن نگار موہن کلپنا کی آپ بیتی ’بکھ، عشق، ادب‘ سے رجوع کرتے ہیں۔ اس کے منتخب حصوں کا اجمل کمال کے قلم سے ترجمہ ادبی جریدے ’آج ‘ کے خصوصی شمارے، ’کراچی کی کہانی‘ میں شائع ہوا تھا۔ اس میں موہن کلپنا نے بچپن میں لاہور کے ایک دورے کا مختصر تاثر بھی بیان کیا ہے۔
ان کے بقول ’سندھ میں چائے زیادہ پی جاتی تھی۔ پنجاب میں انگریز مفت میں چائے کی پڑیاں بانٹتے تھے۔ گھروں میں پھینک جاتے تھے۔ سڑکوں پر چوکوں میں چائے مفت ملتی تھی۔‘
چائے کو لاہور میں رواج دینے کے بارے میں ایک دلچسپ حکایت معروف فلمی کہانی کار سکے دار کی خود نوشت ’ہوک ‘ میں بھی درج ہے۔
’تین باوردی آدمی میاں حمید دی کٹری (ٹکسالی دروازہ) میں داخل ہوئے۔ ایک کے پاس مٹی کے تیل کا چولھا تھا، دوسرا چائے بنانے کا برتن اٹھائے ہوئے تھا، تیسرے کے پاس ایک تھیلا اور ڈول تھا۔ ہم بھی ان کے پیچھے ہولیے۔ کٹری میں جا کر ان لوگوں نے میاں حمید کے نوکر سے کچھ باتیں کیں۔ نوکر چلا گیا۔
بعد میں وہ لوگ چائے بنانے لگ گئے۔ چائے پکنے کے عرصے میں نوکر کٹری سے کچھ لوگوں کو بلا لایا۔ آنے والوں کے پاس گلاس اور پیالیاں تھیں۔ ان لوگوں نے سب کے برتنوں میں چائے ڈال دی۔ اور سب سے کہا کہ ’کل توں اسیں ہر روز ایس ویلے چا تقسیم کرن آیا کراں گے۔‘ (کل سے ہم روزانہ اسی وقت چائے تقسیم کرنے کے لیے آیا کریں گے)
پھر نوکر سے کہا کہ ’تسیں مہربانی کرکے کٹری وچ رہن والیاں دے ناں تے گھراں دے نمبر نوٹ کروا دیو۔‘ (آپ مہربانی فرما کر کوچے میں رہنے والوں کے نام اور گھروں کے نمبر ہی نوٹ کروا دیجیے)۔‘
’دوسرے دن وہ لوگ گھر گھر جا کر چائے بانٹنے لگے۔ کوئی گھر پر موجود نہ ہوتا تو چائے اس کے دروازے کے سامنے انڈیل جاتے۔ تین چار مہینے گزر جانے کے بعد لوگ چائے والوں کے آنے سے پہلے ہی پیالیاں لیے گھروں کے دروازوں پر بیٹھ کر چائے والوں کی راہ تکنے لگ گئے۔
لوگوں کو چائے کا عادی بنا کر وہ لوگ ایک دم غائب ہوگئے۔ ان کے جانے کے دوسرے ہی دن بعد ہر پرچون فروش کو چائے کی سپلائی شروع ہوگئی اور لوگ چائے خریدنے پر مجبور ہوگئے۔ پھر آہستہ آہستہ دودھ دہی کی دکانیں بند ہونے لگیں اور چائے کے کھوکھے کھلنے لگے۔‘
سکے دار کے مطابق، اس سے پہلے لاہور میں چائے کی صرف دو دکانیں تھیں۔ ایک ٹبی گلی کے سامنے اور دوسری لنڈا بازار میں۔
پران نول نے Lahore: A Sentimental Journey میں تقسیم سے پہلے کے لاہورکی ثقافتی و سماجی زندگی کا احوال عمدگی سے بیان کیا ہے۔ اس کتاب سے چائے پینے کا چلن عام کرنے کے لیے اختیار کردہ حربوں کے بارے میں بھی معلوم ہوتا ہے۔
’تیس کی دہائی کے دوران انڈین ٹی مارکیٹ ایکسپنشن بورڈ نے چائے کو مقبول بنانے کے لیے ایک زبردست مہم چلائی۔ لاہور کے بازاروں اور گلیوں میں نمایاں جگہوں پر موبائل ٹی سٹال بنائے گئے جس میں چائے کی تیاری کا عملی مظاہرہ پیش کیا جاتا۔ چائے کے گرما گرم کپ مفت تقسیم کیے جاتے۔ اس کے بعد چائے کا ایک چھوٹا پیکٹ مارکیٹ میں متعارف کرایا گیا جس کی قیمت صرف ایک پیسہ تھی۔ جلد ہی چینی کے برتنوں میں چائے پینا نوجوان نسل کا فیشن بن گیا۔‘ (ترجمہ: نعیم احسن)
پران نول کی کتاب میں ریگل چوک میں سٹینڈرڈ ریستوران کا ذکر بھی ہے جو ان کے مطابق، ٹی ٹائم انقلاب کا نقیب بنا اور جہاں سے ایک روپے چار آنے میں جی بھر کر چائے پی جا سکتی تھی۔
چائے کی مقبولیت میں ریل کے سفر کا بڑا اہم کردار رہا۔ چائے کی پیالی مسافروں کی تھکن دور کرنے کا ذریعہ بنی۔ سٹیشنوں پر مسلمان پانی اور ہندو پانی کی طرح چائے بھی اس تفریق کے ساتھ ملتی تھی۔ موہن کلپنا نے لکھا ہے کہ ’میں شاید نو دس برس کا تھا جب کنبے کے ساتھ لاہور گیا۔ وہاں بھی سٹیشن پر ہندو چائے، مسلمان چائے دیکھی۔ میں نے دونوں کو پی کر دیکھا، مجھے تو کچھ فرق نظر نہ آیا۔‘
معروف فکشن نگار مسعود مفتی نے ’دو مینار‘ میں بتایا ہے کہ لاہور میں ایک زمانے میں شام کے وقت سیر کے واسطے دو ہی جگہیں تھیں:لارنس گارڈن اور مال روڈ۔ لاہور ریلوے سٹیشن کو سیرگاہ تو نہیں البتہ تفریح گاہ کہا جاسکتا تھا۔ خاص طور سے پلیٹ فارم نمبر دو اور چار جن کی اونچی چھت ہر موسم کے لیے چھتری کا کام دیتی تھی۔ برقی قمقموں سے رات کو دن ہو جاتا۔ لوگ دو آنے میں پلیٹ فارم ٹکٹ خرید کر پلیٹ فارم پر سٹالوں، ریستوران یا ریلوے کے ڈائنگ ہال میں کھانے پینے کی جن چیزوں سے حظ اٹھاتے ان میں چائے بھی شامل تھی۔
چائے کے بیوپاریوں کو علم تھا کہ اس خطے میں سال میں زیادہ وقت تو گرمی پڑتی ہے، اس لیے انھوں نے ’گرمیوں میں چائے ٹھنڈک پہنچاتی ہے‘ کے تشہیری جملے سے لوگوں کو باور کرایا کہ وہ موسم سے بے نیاز ہوکر چائے کی چُسکیاں لگاتے رہیں۔
اردو کے ممتاز ادیب مشتاق احمد یوسفی کا کہنا ہے کہ چائے اور چارپائی میں یہ خاصیت مشترک ہے کہ دونوں سردیوں میں گرمی اور گرمیوں میں ٹھنڈک پہنچاتی ہیں۔
نامور مزاح نگار شفیق الرحمٰن کا ایک مضمون ہے: ’چاء‘۔ اس میں ایک عاشق صادق کو محبوبہ نے گرمیوں کے دنوں میں شام پانچ بجے اپنے گھر بلایا۔ یہ ملاقات اس واسطے بھی بڑی اہم تھی کہ تین سال کی رسم و راہ کے بعد محبوبہ آج اسے ابا حضور کے حضور پیش کر رہی تھی۔
یہ مجنوں سوئے منزل رواں تھا کہ اس کی نظر دیوار پر پڑی جس پر لکھا تھا: ’گرمیوں میں گرم چائے ٹھنڈک پہنچاتی ہے۔ نیچے پانچ پیالیوں کی تصویر بنی ہوئی تھی اور لکھا تھا۔ ایک پیسے میں چاء کی پانچ پیالیاں تیار ہوتی ہیں۔ کیا لغویت ہے؟ گرمیوں میں گرم چیز کس طرح ٹھنڈک پہنچا سکتی ہے؟‘
عاشق صاحب تو وقت مقررہ پر پہنچ گئے لیکن نوکرانی کی زبانی معلوم ہوا کہ محبوبہ استراحت فرما رہی ہے۔ موصوفہ کی اس بے اعتنائی سے عاشق کوچۂ یار سے بے نیل مرام واپس آیا۔ راستے میں چاء کا وہی اشتہار نظر سے گزرا جس کے قریب ہی چاء کے لیے مشہور کیفے تھا۔ اب جو اس نے چاء پی تو طبعیت رواں ہوگئی۔ ایک چھوڑ تین پیالیاں پی کر غم غلط کیا۔
آخری پیالی کے بعد اس کی کیا حالت ہوئی اس کی بابت شفیق الرحمٰن لکھتے ہیں: ’تیسری پیالی پر جیسے کوئی اس کے دماغ میں گدگدیاں کرنے لگا۔ وہ مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ سچ مچ مسکرانے لگا۔ اس کے جسم میں یک لخت چستی آگئی۔ کسی نے اس کی روح کو اوور ہال کر دیا۔ جب باہر نکلا تو دیکھا کہ عجب سہانا سماں ہے۔ یہ دنیا تو بڑی دلچسپ جگہ ہے۔ کائنات مسکراتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ اس کا جی چاہا کہ چھلانگیں مارے قلابازیاں کھائے یا کم از کم کسی سے لڑ ہی پڑے۔‘
قصہ کوتاہ یہ کہ چائے کی برکت سے ایسا اثر ہوا کہ اس نے اپنی پالیسی ریویو کی۔ محبوبہ کے در پر دوبارہ حاضری دی جہاں سب اس کے لیے چشم براہ تھے۔ معلوم ہوا کہ سارا کیا دھرا نوکرانی کی لاعلمی کا تھا، میزبان تو چار بجے سے باغیچے میں مہمانِ عزیز کا انتظار کر رہے تھے۔ دیکھا آپ نے، چائے کی وجہ سے راہی کو کھوئی ہوئی منزل بھی مل جاتی ہے۔ عاشق، احسان فراموش نہیں ہوتا اس لیے بگڑی بن جانے کے بعد اس نے چاء کی اہمیت فراموش نہ کی اور چاء چاء کرتا رہا۔ کیفے میں جا کر پھر چاء پی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ واقعی گرمیوں میں گرم چائے ٹھنڈک پہنچاتی ہے بلکہ منجمد کرکے رکھ دیتی ہے۔
شفیق الرحمٰن نے مضمون کے آخر میں یہ نوٹ دیا: اس مضمون کو چاء کی کسی کمپنی کا اشتہار ہرگز نہ سمجھا جائے۔
آخر میں انور مسعود کی پنجابی نظم ’لَسّی تے چاء‘ پر تھوڑی بات۔ اس میں لسی اور چاء کے درمیان مکالمہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، دونوں اپنی اپنی خوبیاں بیان کرتی ہیں اور دوسرے کے عیب گنواتی ہیں۔
شاعر اپنے کلچر میں رچا بسا ہے اس لیے چاء کے مقابلے میں اس کا جھکاؤ لسی کی طرف نظر آتا ہے۔ نظم کے آخری حصے میں لسی مقامی ہونے پر فخر کرتی ہے اور چاء کو پردیسن ہونے کا طعنہ دیتی ہے۔ اس کی بد دعا ہے کہ وہ اپنے متعارف کرانے والے انگریزوں کی طرح اس خطے سے غائب غلہ ہو جائے۔ نظم میں دودھ کو جب اس مناقشے کو ختم کرنے کے لیے ثالث بنایا جاتا ہے تو وہ کسی ایک فریق کا طرفدار بننے کے بجائے نیوٹرل رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔