Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پیٹرول پمپ پر نوجوان لڑکیوں کی کیا ضرورت، کیا معاشرہ اس قابل ہے؟‘

سوشل میڈیا پر گفتگو کا آغاز پیٹرول پمپ پر لڑکی کو کام کرتے ہوئے دیکھ کر ہوا (فوٹو: نسیم اکرم ٹوئٹر)
پیٹرول پمپ پر نوجوان لڑکیوں کی کیا ضرورت ہے؟ کیا ہمارا معاشرہ اس قابل ہے؟ معاشرہ اس دقیانوسی سوچ سے کب باہر آئے گا؟ یہ سوالات پاکستانی سوشل میڈیا پر اس وقت شروع ہوئے جب پیٹرول پمپ پر گاڑیوں میں پیٹرول بھرتی لڑکی کی تصویر وائرل ہوئی۔
جہاں کہیں خواتین کے گھروں سے باہر کام کرنے کے حوالے سے بات شروع کی جاتی ہے وہ ایک طویل بحث کی صورت تو اختیار کر لیتی ہے البتہ کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ پاتی۔
اسی طرح کی گفتگو کا آغاز پیٹرول پمپ پر لڑکی کو کام کرتے ہوئے دیکھ کر ہوا۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ ’ہمیں اپنی خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی ہمت اور حوصلہ دینا چاہیے۔ جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خواتین کو مشقت والے کام گھر سے باہر جا کر نہیں کرنے چاہییں۔‘
ٹوئٹر صارف نسیم اکرم پیٹرول پمپ پر لڑکی کے کام کرنے کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ ’پیٹرول پمپس پر نوجوان لڑکیوں کی کیا ضرورت ہے؟ ہم جس قسم کے سماجی سیٹ اپ میں رہتے ہیں وہاں اس ایڈونچر کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔
سکندر علی ہلیو لڑکی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’لڑکی کو پیٹرول پمپ پر کام کرتے ہوئے دیکھا۔ یہ ان خواتین میں سے ہیں جو پاکستان کے موجودہ حالات کو چیلنچ کر کے دقیانوسی سوچ کو تبدیل کر رہی ہیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ’ہم نے عورتوں کو گھر کے کام کاج تک محدود کیا ہوا ہے۔ اُن کا کام برابر کی محنت کے باوجود کسی گنتی میں نہیں آتا۔
زارا ملک شیر کا کہنا ہے کہ ’یہ لڑکیاں گرمی کے موسم میں پیٹرول پمپ پر کام کر رہی ہیں جہاں ہمیشہ مردوں کا ہجوم رہتا ہے۔ پیٹرول پمپ کا ماحول لڑکیوں کے لیے غیر اطمینان بخش ہوتا ہے۔ سارا دن منہ ڈھک کر رکھنا آسان کام نہیں ہے۔
رملا نے کہا کہ ’جب پیٹرول پمپ پر کام کرنے والی کوئی لڑکی ہو تو میں زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہوں۔ میں نے پہلی بار یہ ایک اور پیٹرول پمپ پر دیکھا تھا اور بہت خوش ہوئی تھی۔

 

شیئر: