سنہ 2020 میں حج آپریشن کو انتہائی محدود رکھا گیا تھا۔ (فوٹو: روئٹرز)
کورونا کی عالمی وبا کے باعث گزشتہ دو برسوں کے دوران حج آپریشن کوانتہائی محدود کیا گیا تھا۔ کورونا کے پہلے برس یعنی سنہ 2020 کا حج انتہائی محدود سطح تک تھا اور اس میں حجاج کی تعداد بھی بہت کم تھی۔
سال 2021 کا حج بھی کورونا کی نذرہوا۔ اس کے لیے صرف اندورن مملکت سے سعودی شہریوں اور مقیم غیرملکیوں کو حج کی اجازت دی گئی تھی اور وہ بھی محدود تعداد میں تھی تاہم سنہ 2020 کے مقابلے میں یہ تعداد کافی زیادہ تھی۔
بیرون مملکت سے عازمین حج کی آمد پر کورونا وبا کے باعث پابندی عائد تھی۔ جس کے باعث بیرون مملکت سے عازمین حج نہیں آ سکے تھے۔
کورونا سے قبل حج آپریشن
کورونا وبا سے قبل سنہ 2019 کا حج آپریشن معمول کے مطابق تھا۔ معمول کے مطابق دنیا بھر سے عازمین حج کے قافلے مملکت پہنچے تھے اورحج ادا کیا تھا۔
سنہ 2019 میں 25 لاکھ سے زائد افراد نے حج ادا کیا تھا۔ کسی قسم کا کوئی بڑا سانحہ نہ ہوا۔ مسجد الحرام میں بھی مکمل گنجائش کے ساتھ حجاج کرام نے طواف کیا اور مشاعر مقدسہ میں بھی معمول کے مطابق تمام ارکان اور واجبات بڑے سکون واطمینان سے ادا کیے گئے تھے۔
سنہ 2020 کا حج
کورونا وائرس وبا کی صورت میں عالمی سطح پر پھیل چکا تھا۔ دنیا کا ہر ملک اس سے متاثر تھا۔ تمام ممالک میں عالمی ادارہ صحت کے وضع کردہ احتیاطی ضوابط پر سختی سے عمل درآمد کیا جا رہا تھا جن میں سماجی فاصلہ، ماسک کی پابندی اور لاک ڈاون وغیرہ شامل تھے۔
وبا کی وجہ سے حج و عمرہ پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ سنہ 2020 کے حج سیزن سے قبل لوگوں کی جانب سے حج کی ادائیگی کے حوالے سے ہی دریافت کیا جاتا تھا کیونکہ سماجی فاصلے پر عمل حج میں ممکن نہیں تھا۔
اس برس سعودی حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ حج انتہائی محدود سطح پر ہو گا جس میں اندرون ممکت سے مخصوص شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد ہی شرکت کریں گے۔
ان میں وبا کے دوران امور صحت سے متعلق عملہ جنہوں نے وبا کے دوران صحت کے حوالے سے خدمات انجام دیں اور بعض سکیورٹی اداروں کے اہلکار بھی محدود تعداد میں شامل تھے۔
وبا کے پہلے برس جب اس بیماری سے بچاؤ کے لیے ویکسین بھی تجرباتی مراحل میں تھی اور اس کے بارے میں طبی اداروں کی جانب سے تحقیق کا عمل بھی جاری تھا، اسی لیے احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کیا گیا تھا اور حج آپریشن کو انتہائی محدود رکھا گیا، تاکہ وبا کو محدود کرتے ہوئے اسے مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔
سنہ 2021 کا حج آپریشن
سنہ 2021 کا حج آپریشن بھی خصوصی احتیاطی تدابیر کے تحت کیا گیا تھا۔ اس برس عازمین کی مجموعی تعداد صرف 60 ہزار تھی۔ جن میں سعودی شہری اور مملکت میں رہنے والے غیرملکی شامل تھے۔
حج کے لیے جن افراد سے درخواستیں طلب کی گئی تھیں ان کے لیے لازمی تھا کہ انہوں نے کورونا سے بچاؤ کے لیے ویکسین کی دونوں خوراکیں لگوائی ہوں۔ حج کے لیے ایسے درخواست گزاروں کو اولیت دی گئی تھی جنہوں نے اس سے قبل حج نہیں کیا تھا جس کا ریکارڈ ’ابشر‘ اکاؤنٹ کے ذریعے چیک کیا جاتا تھا۔
واضح رہے وزارت حج کے قوانین کے مطابق سعودی شہری یا مملکت میں رہنے والے غیرملکیوں کے لیے پانچ برس کی پابندی عائد ہے۔ ایسے افراد جنہیں حج کیے ہوئے پانچ برس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے انہیں حج کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ حج کا ریکارڈ وزارت داخلہ کی ویب سائٹ ’ابشر‘ پر بھی موجود ہوتا ہے۔
سنہ 2021 میں مملکت کے مختلف شہروں سے حج کے لیے پانچ لاکھ سے زائد درخواستیں موصول ہوئی تھیں جن میں غیرملکی مقیمین بھی شامل تھے۔
حج آپریشن کے لیے مقررہ کمیٹی میں وزارت صحت کے نمائندے بھی شامل تھے جن کی جانب سے احتیاطی تدابیر کے حوالے سے جاری ضوابط پر عمل کیا گیا۔
وزارت صحت کی جانب سے سماجی فاصلے کے اصول پرعمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے مسجد الحرام میں طواف اور ’سعی‘ کے لیے بھی حجاج کے درمیان فاصلہ رکھا گیا تھا جس کے لیے مطاف میں باقاعدہ لائنیں ڈالی گئیں جن پر چلتے ہوئے حجاج کو طواف کرنا ہوتا تھا۔
’سعی‘ کے لیے بھی مقررہ سماجی فاصلے کے اصول پرعمل کیا گیا تھا تاکہ کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
مشاعر مقدسہ میں حجاج کے لیے مقررہ خیموں میں بھی سماجی فاصلے کے اصول پرعمل کرتے ہوئے حجاج کے خیموں کے درمیان دو میٹر سے زیادہ فاصلہ رکھا گیا تھا۔
وزارت صحت کی جانب سے حج آپریشن کی مکمل نگرانی کا عمل جاری رہا تھا۔ مشاعر مقدسہ میں حجاج کے خیموں اور رہائشی مقامات پر مسلسل سینیٹائزنگ کی جاتی رہی جبکہ منی میں جمرات کے لیے جانے والوں کو پروگرام کے مطابق مختصر تعداد میں روانہ کیا گیا، جس کا مقصد جمرات پر ازدحام کی صورتحال سے محفوظ رہنا تھا۔
حجاج کو مشاعر مقدسہ میں منتقل کرنے کے لیے فراہم کی جانے والی ٹرانسپورٹ کو بھی مسلسل سینیٹائز کیا جاتا تھا۔
رواں برس حج آپریشن
رواں برس بھی سعودی حکومت کی جانب سے محدود سطح پرحج آپریشن کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ امسال بیرون اور اندرون مملکت سے حجاج کی مجموعی تعداد 10 لاکھ مقرر کی گئی ہے۔
امسال بیرون مملکت سے حجاج کا تناسب زیادہ رکھا گیا ہے۔ مجموعی تعداد میں سے 85 فیصد حجاج بیرون مملکت سے آئے ہیں جن کی مجموعی تعداد آٹھ لاکھ 50 ہزار ہے، جبکہ اندورن مملکت سے حج کرنے والوں کا تناسب مجموعی تعداد کا 15 فیصد مقرر کیا گیا ہے جس کے مطابق ڈیرھ لاکھ مقامی حجاج امسال حج ادا کریں گے۔
رواں برس سب سے زیادہ حجاج انڈونیشیا کے ہیں جن کی تعداد ایک لاکھ 51 ہے جبکہ دوسرا نمبر پاکستانی حجاج کا ہے جن کی تعداد 81 ہزار 132 ہے۔
وزارت نے مسلم ملک کی آبادی کے تناسب سے حجاج کا کوٹہ مقرر کیا جس کے لیے ہر ایک ہزار میں سے ایک شخص کو حج کی اجازت دی گئی ہے۔
حج کی شرائط
وزارت صحت کے ضوابط پرعمل کرتے ہوئے وزارت حج کی جانب سے عمر کی انتہائی حد 65 برس مقرر کی گئی ہے جبکہ عالمی سطح پر منظورشدہ ویکسین کی دونوں خوراکیں لگوانا بھی درخواست گزار کی اہلیت کے لیے ضروری ہے۔
بیرون مملکت سے آنے والے حجاج کے لیے سفر پر روانگی سے زیادہ سےزیادہ 72 گھنٹے تک کی پی سی آر کی رپورٹ پیش کرنا ضروری ہے۔
پی سی آرٹیسٹ کے لیے ضروری ہے کہ وہ مقررہ و منظورشدہ لیبارٹریوں سے ہی کرایا جائے بصورت دیگرقابل قبول نہ ہو گا۔
احتیاطی تدابیر و ہدایات
وزارت صحت کی جانب سے جاری ہدایت میں کہا گیا ہے کہ بیرون مملکت سے آنے والے حجاج موسمی بخار کی ویکسین لگائیں۔ یہی ہدایت داخلی حجاج کے لیے بھی جاری کی گئی ہے۔
ایسے حجاج جو کسی مرض میں مبتلا ہیں اور اس کے لیے مخصوص ادویات استعمال کرتے ہیں انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی ادویات ساتھ لائیں تاکہ کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
حجاج کو ماسک کے استعمال اور سماجی فاصلے کے اصول پرعمل کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ ماسک کا استعمال ازدحام والے مقامات پرکیا جانا ضروری ہے۔
اس امر کا بھی خیال رکھا جائے کہ ایک دفعہ استعمال کیا جانے والا ماسک بار بار استعمال نہ کیا جائے اورماسک کو استعمال کے بعد درست طریقے سے تلف کیا جائے۔ ماسک استعمال کرنے کے بعد اسے سڑک پر یا کمرے میں نہ پھینکیں۔
موسم کے حوالے سے احتیاطی تدابیر میں کہا گیا ہے کہ امسال حج ایام موسم گرما میں ہوں گے اس لیے کھلے مقامات پرجانے سے قبل چھتری ضرور ساتھ رکھیں تاکہ دھوپ کی تمازت سے محفوظ رہ سکیں۔
توقع ہے کہ آئندہ برس حج آپریشن 2020 سے قبل کی طرح ہو گا اور مکمل گنجائش کے ساتھ حجاج کی تعداد لاکھوں میں ہو گی۔