Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نئے برطانوی وزیراعظم کی دوڑ میں پاکستانی نژاد ساجد جاوید بھی شامل

لز ٹرس بہت سے کنزریٹوز میں مقبول ہیں، وہ ان میں پارٹی کی پہلی خاتون وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کی جھلک دیکھتے ہیں۔ (فوٹو: اے پی)
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی جانب سے جمعرات کو کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ  کے عہدے سے استعفے کے اعلان کے بعد کنزریٹو پارٹی کے نئے قائد کا انتخاب آنے والے دنوں میں ہو گا۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بورس جانسن تب تک وزیراعظم رہیں گے جب تک پارٹی ممبران نئے پارٹی قائد کا انتخاب نہیں کر لیتے۔
درج ذیل سطور میں ان امیدواروں کا جائزہ لیں گے جو بورس جانسن کی جگہ کنزریٹو پارٹی کے قائد اور ملک کے وزیراعظم بن سکتے ہیں۔

ساجد جاوید (سابق وزیر صحت)

52 سالہ ساجد جاوید نے منگل کو وزیر صحت کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ انہوں نے اعلان کیا تھا ’بس بہت ہو گیا‘ اور ’مسئلہ اوپر سے شروع ہوتا ہے۔‘

ساجد جاوید نے 2019 میں کنزرویٹو قائد کا الیکشن لڑا تھا لیکن وہ چوتھے راؤنڈ میں بورس جانسن سے ہار گئے تھے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

ساجد جاوید جون 2021 سے وزیر صحت تھے۔ اس سے قبل انہوں نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں لیکن 2020 کے اوائل میں انہوں نے بورس جانسن کے ساتھ اپنے مشیروں کو برطرف کرنے کے حکم پر اختلافات کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔ بورس جانسن انہیں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے واپس لائے جو ان کی قابلیت کو ظاہر کرتا ہے۔
چار بچوں کے باپ ساجد جاوید 2010 میں منتخب ہوئے تھے۔ وہ وزارت داخلہ سمیت بزنس، کلچر اور ہاؤسنگ کے محکموں کی سربراہ رہے ہیں۔
انہوں نے 2019 میں کنزرویٹو قائد کا الیکشن لڑا تھا لیکن وہ چوتھے راؤنڈ میں بورس جانسن سے ہار گئے تھے۔
ساجد جاوید کے والدین پاکستانی تھے اور سیاست میں آنے سے قبل ان کا بینکنگ سیکٹر میں شاندار کیریئر تھا۔

سویلا بریورمین (اٹارنی جنرل)

سویلا بریورمین رکن پارلیمان اور بیرسٹر ہیں۔ وہ 2020 سے برطانیہ کی اٹارنی جنرل ہیں۔
انہوں نے بدھ کو عوامی سطح پر اعلان کیا کہ وہ برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کی قائد بننے کی کوشش کریں گی۔

سویلا بریورمین رکن پارلیمان اور بیرسٹر ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

سویلا بریورمین عوام میں اتنی مقبول نہیں ہیں جبکہ بورس جانسن کی کابینہ میں رہنے کے باوجود ان کے اعلان نے کافی لوگوں کو حیران کر دیا تھا۔

رشی سونک (سابق وزیر خزانہ)

کنزرویٹو کی ممکنہ قیادت کے دعویداروں میں سب سے مشہور رشی سونک نے منگل کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
انہوں نے اپنے استعفے میں کہا تھا کہ ’عوام توقع کرتے ہیں کہ مناسب طریقے، قابلیت اور سنجیدگی سے حکومت چلائی جائے گی۔‘
رشی سونک کو ایک وقت میں بڑے پیمانے پر پارٹی کا سب سے روشن ابھرتا ہوا ستارہ سمجھا جاتا تھا اور وہ بورس جانسن کی جگہ لینے کے لیے بک میکرز کے پسندیدہ تھے۔
وہ 2020 کے مشکل وقت میں وزیر خزانہ بنے تھے اور ان کی پالیسیوں کو پذیرائی بھی ملی تھی۔ لیکن ’پارٹی گیٹ‘ نے سب کچھ بدل دیا اور انہیں بھی برطانوی وزیراعظم کی طرح لاک ڈاؤن میں ڈاؤننگ سٹریٹ میں سالگرہ پارٹی میں شمولیت کرنے پر پولیس کی طرف سے جرمانہ ہوا۔

رشی سونک کو ایک وقت میں بڑے پیمانے پر پارٹی کا سب سے روشن ابھرتا ہوا ستارہ سمجھا جاتا تھا۔ (فوٹو: اے پی)

اس کے علاوہ برطانیہ میں شدید مہنگائی سے نمٹنے کے لیے بروقت اقدامات نہ اٹھانے کی وجہ سے بھی تنقید کی زد میں رہے۔

لز ٹرس (وزیر خارجہ)

46 سالہ لز ٹرس نے وزیر تجارت کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے بعد ستمبر میں کابینہ کا اعلیٰ عہدہ سنبھالا۔ اس کے بعد سے انہوں نے پارٹی کے اندر زور پکڑا ہے اور اپنے عزائم کو کبھی راز نہیں رکھا۔
وہ بلاک سے برطانیہ کے نکلنے کے بعد کے معاملات پر یورپی یونین کے ساتھ برطانیہ کی اہم مذاکرات کار بھی ہیں۔ ایک وقت میں یورپی یونین میں رہنے کے لیے مہم چلانے والی لز ٹرس ایک بریگزٹ چیمپئن بن چکی ہیں۔
وہ بہت سے کنزریٹوز میں مقبول ہیں، جو ان میں پارٹی کی پہلی خاتون وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کی جھلک دیکھتے ہیں۔

بین والیس (وزیر دفاع)

بین والیس نے اپنی سیدھی بات کرنے کے انداز کی وجہ سے مشہور ہیں، خاص طور پر کنزرویٹو قانون سازوں میں جنہوں نے برطانیہ پر اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کرنے پر زور دیا ہے۔

بین والیس نے اپنی سیدھی بات کرنے کے انداز کی وجہ سے مشہور ہیں۔ (فوٹو: اے پی)

52 سالہ سابق فوجی بین والیس یوکرین میں روس کی جنگ کے خلاف برطانوی حکومت کی ایک اہم آواز سمجھے جاتے ہیں۔

شیئر: