میدان عرفات و مسجد نمرہ ماضی اور حال کے آئینے میں
میدان عرفات و مسجد نمرہ ماضی اور حال کے آئینے میں
منگل 12 جولائی 2022 0:01
ارسلان ہاشمی ۔ اردو نیوز، جدہ
میدان عرفات کے درمیان میں جو پہاڑی ہے اسے’جبل الرحمہ‘ کہا جاتا ہے(فوٹو، ٹوئٹر)
پیغمبر اسلام کی حدیث مبارکہ ہے ’الحج عرفہ‘ یعنی حج میدان عرفات میں قیام کرنا ہے۔ وقوف عرفہ ، میدان عرفات میں نو ذوالحجہ کوصبح سے لیکرغروب آفتاب تک قیام کرنا لازمی ہے۔
وقوف عرفہ حج کا رکن اعظم ہے۔ اگرکوئی حاجی دس ذوالحجہ کی فجر تک میدان عرفات میں نہیں پہنچتا تو اس کا رکن اعظم ادا نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے وقوف عرفہ یعنی میدان عرفات میں قیام کو حج کا لازمی اور رکن اعظم قرار دیا گیاہے۔
دنیا بھرسے آنے والے فرزندان اسلام اس عظیم میدان میں جمع ہوتے ہیں جہاں ’جبل الرحمہ‘ (رحمہ پہاڑ) واقع ہے۔ یہاں ظہراورعصرکی نمازیں ایک اذان اور دواقامتوں کے ساتھ قصر وجمع (ظہر کی دو اور عصرکی 2 رکعتیں) کی صورت میں ادا کی جاتی ہے اور خطبہ حج دیا جاتا ہے۔
میدان عرفات کا محل وقوع
میدان عرفات مکہ مکرمہ سے 22 کلومیٹر دور ہے جبکہ وادی منی سے اسکا فاصلہ 10 اور مزدلفہ سے 6 کلومیٹرہے ۔ میدان عرفات شمال سے جنوب تک 12 کلومیٹر اورمشرق سے مغرب تک 5 کلومیٹرپرمحیط ہے۔ میدان عرفات حدود حرم مکی الشریف کے باہرواقع ہے۔
دنیا کا واحد میدان ہے جو سال میں صرف ایک دن یعنی 9 ذوالحجہ کو آباد ہوتا ہے اور لاکھوں فرزندان اسلام دوسفید چادروں میں ملبوس سارا دن عبادت اوردعاوں میں مصروف رہتے ہیں ۔
جبل الرحمہ ’رحمہ پہاڑی‘
میدان عرفا ت کے درمیان میں جو پہاڑی واقع ہے اسے جبل الرحمہ کہا جاتا ہے۔ اس پہاڑی کی اونچائی 200 فٹ ہے جبکہ اس کی چوٹی پر7 میٹراونچا ستون بنایا گیا ہے تاکہ دور سے اس پہاڑی کی شناخت ہوسکے۔
جبل رحمت کے اوپرجانے کےلیے سیڑھیاں بنائی گئی ہیں جو حج کے دن یعنی وقوف عرفہ والے روز حجاج سے بھری ہوتی ہیں جبکہ پہاڑی کو دورسے دیکھنے پرسفید دکھائی دیتی ہے کیونکہ وقوف عرفہ والے روز اس پہاڑی پرحجاج کرام جوکہ سفید چادروں ( احرام ) میں ملبوس ہوتے ہیں چڑھے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ سرخی مائل پہاڑی سفید نظارہ پیش کرتی ہے۔
جبل الرحمہ کوجانے کےلیے میدان عرفات میں جگہ جگہ سائن بورڈ لگائے گئے ہیں جن پراس مقام سے جبل الرحمہ کی مسافت بھی درج ہوتی ہے تاکہ حجاج کرام کو عرفات پہاڑی پرپہنچنے میں سہولت ہو۔
رحمہ پہاڑی کے دامن میں حجاج کی سہولت کےلیے خصوصی طورپرجدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے ایسا فرش بنایا ہے جوگرمی کی تپش کو بڑھانے کے بجائے کم کرتا ہے تاکہ حجاج کرام کووقوف عرفہ کے دوران دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
پہاڑی کے اطراف میں گرمی کی شدت کو کم کرنے کےلیے پانی کی پھوار برسانے کا خصوصی انتظام کیا گیا ہے۔ پانی کی پھوارمسلسل برسنے سے علاقے میں گرمی کی شدت محسوس نہیں ہوتی۔
میدان عرفات ، ماضی اورحال
سعودی حکومت کی جانب سے ضیوف الرحمان کے آرام وسکون کو ہمیشہ مقدم رکھا جاتا ہے اسی نظریے کے تحت حکومت کی جانب سے مشاعرمقدسہ میں بے پناہ سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔
آج سے چار دہائی قبل تک میدان عرفات چٹیل میدان ہوا کرتا تھا سایہ دار درخت کا نام ونشان نہیں ہوتا تھا جس کی وجہ سے حجاج کرام وقوف عرفہ کے لیے خیمے گاڑتے یا جن کے پاس خیمے نہیں ہوتے وہ چادروں کا سایہ کرکے اس کے نیچے وقت گزارتے تھے بیشترحجاج گاڑیوں اور بسوں کے ساتھ چادریں لگا کراپنے لیے سایہ کرتے تھے۔
ماضی میں میدان عرفات میں بنیادی سہولتیں انتہائی کم ہوا کرتی تھیں جن میں وضو وطہارت خانے اور شاہراہوں کا نظام ودیگر سہولتیں غیرہ اتنی منظم نہیں تھیں جتنی اب ہیں۔
سعودی حکومت کی جانب سے میدان عرفات میں 80 کی دہائی میں شجرکاری مہم کا آغاز کیا گیا جس کا مقصد آنے والے حجاج کوسایے کی سہولت فراہم کرنے کے علاوہ موسم کو بہتربنانا بھی تھا۔
اس وقت میدان عرفات درختوں اور پودوں سے سرسبز ہوچکا ہے ۔ تقریبا ہر دومیٹرکے فاصلے پردرخت لگائے گئے ہیں جن کی وجہ سے شاہراہوں اوردیگرمقامات پرحجاج کو سایہ دردرختوں کی سہولت میسرآئی علاوہ ازیں درختوں کی وجہ سے موسم میں بھی خوشگوار تبدیلی آئی۔
ماضی میں مشاعر مقدسہ میں خاص طورپرپانی کی شدید قلت کا سامنا ہوتا تھا مگر اب پانی کا ایسا انتطام کیا گیا ہے کہ میدان عرفات میں ہزاروں کی تعداد میں الیکٹریکل واٹرکولرز نصب کیے گئے ہیں جن کی وجہ سے میدان عرفات میں پانی کی قلت کا مسئلہ مستقل طورپرختم ہوگیا۔
مشاعر مقدسہ میں جگہ جگہ وضو اورطہارت خانے قائم کیے ہیں جن کی وجہ سے حجاج کرام کو کافی سہولت ہوئی ہے۔ طہارت خانوں میں غسل کے بھی خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
کھانے کی مستقل اوروافرمقدار میں فراہمی کے لیے لنگرخانوں کے بھی انتظامات موجود ہیں جبکہ سرکاری سطح پروقوف عرفہ والے دن حکومت کی جانب سے حجاج کرام کو دوپہرکا خصوصی کھانا فراہم کیا جاتا ہے جو انکے خیموں تک مخصوص اہلکاروں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔ یقینی طورپریہ ایک بڑا کارنامہ ہے۔
شاہراہوں پرجگہ جگہ پانی کی پھوار برسانے والے فواروں کے خصوصی انتظامات کافی عرصہ قبل کیے گئے ہیں جن سے میدان عرفات میں دن بھردھوپ کی تپش کا احساس نہیں ہوتا۔
عرفات کے میدان میں حجاج کرام کو مستقل طورپرصحت سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ایک مرکزی ہسپتال جبکہ ڈسپینسریوں کے بھی مثالی انتظامات موجود ہیں جہاں طبی عملہ بمعہ ادویات و ضروری آلات کے ہمراہ ہمہ وقت موجود ہوتا ہے۔
کسی بھی ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے شہری دفاع اور ہلال الاحمر کے یونٹس موجود ہوتے ہیں جبکہ آتشزدگی سے بچاو کے لیے فائرفائٹرز کے یونٹس کو ہرشاہراہ پرتعینات کیا جاتا ہے جن میں موٹرسائیکل سوار یونٹس بھی شامل ہیں, موٹرسائیکل سوار دستوں کو اس لیے تعینات کیا جاتا ہے کہ جہاں گاڑی کے پہنچنے میں دیر ہوموٹرسائیکل سوار اہلکار جلدی وہاں پہنچ جائیں۔
مسجد نمرہ
میدان عرفات میں واقع مسجد ’ نَمِرہ ‘ میدان عرفات میں قائم یہ مسجد جسے مسجد عرفہ بھی بھا جاتا ہے یہاں وقوف عرفہ کے دن خطبہ حج دیا جاتا ہے اور ظہرو عصر کی نمازیں ایک اذان ودواقامت کے ساتھ پڑھائی جاتی ہیں۔
مسجد نمرہ میدان عرفات کی مغربی جانب واقع ہے اس سے متصل وادی ’عرنہ ‘ ہے مسجد کی دیوار مکہ مکرمہ کے رخ پرہے جبکہ وادی عرنہ کا شمار میدان عرفات میں نہیں ہوتا اسکی وضاحت کےلیے انتظامیہ کی جانب سےمختلف زبانوں میں بھی وضاحتی بورڈ لگائے گئے ہیں تاکہ حجاج کرام وہاں قیام نہ کریں کیونکہ حدود سے باہر ہونے کی وجہ سے انکا وقوف عرفہ شمار نہیں ہوتا۔
العربیہ نیٹ کے مطابق بعض تاریخی کتب میں کہا گیا ہے کہ دوسری صدی ہجری میں عرفات کے اس مقام پرجہاں نبی آخر الزمان ﷺ نے خطبہ حجٖۃ الوداع دیا تھا وہاں مسجد تعمیرکرائی جسے آج مسجد نمرہ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
وقت کے ساتھ ساتھ مسجد نمرہ کی توسیع اور تعمیر نوکی جاتی رہی۔ 843 ہجری میں ’ملک ظاہرجقمق‘ نے اسے دوبارہ تعمیر کرایا جبکہ 874 سال ہجری میں ’ملک اشرف قایتبائی‘ نے مسجد نمرہ کی توسیع کراتے ہوئے اس میں دوبڑے برآمدے بنوائے اور ان پرسایے کا انتظام کیا گیا تاکہ حجاج کوسہولت ہو۔
وقتا فوقتا مختلف ادوار میں مسجد نمرہ توسیع و تعمیرکے مراحل سے گزرتی رہی ۔ سعودی حکومت کی توسیع سے قبل مسجد نمرہ کی لمبائی 90 جبکہ چوڑائی 80 میٹرہوا کرتی تھی ۔
سعودی حکومت نے مسجد نمرہ کی عظیم الشان توسیع کرائی جس کے بعد اس کا رقبہ ایک لاکھ 10 ہزار مربع میٹرہو گیا جبکہ دوسری منزل بھی تعمیر کرائی گئی جس کا رقبہ 27 ہزار مربع میٹرہے ۔ نمازیوں کی گنجائش بھی 4 لاکھ کے قریب تک پہنچ گئی۔
مسجد کے عقب میں 8 ہزار مربع میٹر پرشیڈ لگائے گئے جہاں پنکھوں کا بھی خصوصی اہتمام کیا گیا۔ مسجد کے 6 مینار ہیں جبکہ ہرمینار کی اونچائی 60 میٹرہے۔ مسجد کو سینٹرل ایئرکنڈیشنڈ کیا گیا ہے تاکہ حجاج کرام کو کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے اوروہ یکسو ہوکرحج کا رکن اعظم ادا کریں۔