پاکستان کی وفاقی حکومت نے قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کردیا ہے۔
قومی احتساب دوسری ترمیم کا بل وزیر مملکت برائے قانون شہادت علی اعوان نے پیش کیا۔ انہوں نے سپیکر سے درخواست کی کہ قائمہ کمیٹی کو ہدایت کی جائے کہ دو سے تین روز میں اس بل پر اپنی رپورٹ ایوان میں پیش کرے۔ کئی معاملات میں احتساب عدالتوں میں مشکلات ہیں جنہیں دور کرنا ضروری ہے۔
مزید پڑھیں
-
قومی احتساب بیورو اور چیئرمین نیب کا مستقبل کیا ہو گا؟Node ID: 660576
بل کے اغراض و مقاصد
قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے بل کے حوالے سے وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ ’اس ترمیم کا مقصد نجی افراد کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال کر نیب کو صرف اور صرف میگا کرپشن سکینڈلز کے خلاف تحقیقات کرنے اور ایکشن لینے تک محدود کیا جائے گا۔‘
’اس ترمیمی بل کے ذریعے نیب کو پابند کیا جائے گا کہ اگر تفتیش مکمل ہونے کے بعد ریفرنس دائر کرتا ہے اور اس کے بعد وہ کسی فرد کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر کرنا چاہتا ہے تو یہ صرف اسی صورت میں ہو سکے گا کہ نئے شواہد سامنے آئیں۔ اس کے لیے نیب عدالت کی اجازت درکار ہوگی اور اس کا مقصد احتساب کے عمل تیز تر کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’نیب تفتیشی افسران کو پابند بنایا جا رہا ہے کہ وہ دوران تفتیش کسی بھی ملزم کو ہراساں نہیں کریں گے۔ ان کے سوالات متعلقہ تفتیش تک محدود ہوں گے اور کسی بھی فرد کو طلبی سے پہلے واضح طور پر بتایا جائے گا کہ اسے ملزم کی حیثیت سے بلایا جا رہا ہے یا گواہ کی حیثیت سے تاکہ وہ اس حوالے سے ثبوت فراہم کر سکے۔‘
وفاقی وزیر قانون کے مطابق ’پلی بارگین کے سیکشن میں ترمیم کے ذریعے حکومت کے مفاد کو یقینی بنایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص پلی بارگین کرتا ہے اور عدالت اس کی منظوری دیتی ہے لیکن وہ ادائیگی میں ناکام رہتا ہے تو عدالتی منظور ازخود کالعدم ہو جائے گی۔‘

نیب آرڈیننس میں کیا ترامیم کی گئی ہیں؟
قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے نیب (دوسری ترمیم) بل 2022 کے تحت نیب 500 ملین روپے (50 کروڑ روپے) سے کم کے کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کر سکے گا، جبکہ احتساب عدالت کے ججوں کے تقرر سے متعلق صدر کا اختیار بھی واپس لے لیا گیا ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب کی مدت ملازمت میں 3 سال تک کی توسیع کی جا سکے گی۔
نیب قانون کے سیکشن 16 میں بھی ترمیم تجویز کی گئی ہے جس کے تحت کسی بھی ملزم کے خلاف اسی علاقے کی احتساب عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکے گا جہاں جرم کا ارتکاب کیا گیا ہو جبکہ سیکشن 19 ای میں بھی ترمیم کے ذریعے نیب کو ہائی کورٹ کی مدد سے نگرانی کی اجازت دینے کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے۔
ملزمان کے خلاف تحقیقات کے لیے دیگر کسی سرکاری ایجنسی سے مدد نہیں لی جا سکے گی۔
ملزم کو اس کے خلاف الزامات سے آگاہ کیا جائے گا تاکہ وہ عدالت میں اپنا دفاع کر سکے۔ احتساب عدالتوں کے ججز کی تقرری کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہی رہے گا۔
سیکشن 31B میں بھی ترمیم کے ذریعے چیئرمین نیب فرد جرم عائد ہونے سے قبل احتساب عدالت میں دائر ریفرنس ختم کرنے کی تجویز کر سکیں گے۔

پہلا ترمیمی بل کیا تھا؟
پہلے نیب ترمیمی بل کے تحت وفاقی یا صوبائی ٹیکس معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے جبکہ بالواسطہ یا بلاواسطہ مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے۔
کسی بھی ترقیاتی منصوبے یا سکیم میں بے قاعدگی نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گی جبکہ کسی بھی ریگولیٹری ادارے کے فیصلوں پر نیب کارروائی نہیں کرسکے گا جب تک بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی مالی فائدہ شامل نہ ہو۔
چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ پر ڈپٹی چیئرمین قائم مقام سربراہ ہوں گے۔ ڈپٹی چیئرمین کی عدم موجودگی میں ادارے کے کسی بھی سینیئر افسر کو قائم مقام چیئرمین کا چارج دیا جاسکے گا۔
بل کے مطابق احتساب عدالتوں میں ججز کی تعیناتی 3 سال کی مدت کے لیے ہوگی جبکہ احتساب عدالت کے جج کو ہٹانے کے لیے متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت ضروری ہوگی۔
