کیس کا فیصلہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سنائے گا۔
بینچ میں ارکان الیکشن کمیشن نثار درانی اور شاہ محمد جتوئی بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ21 جون کو محفوظ کیا تھا۔
پی ٹی آئی کے خلاف ممنوع ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کا معاملہ تحریک انصاف کے بانی اراکین میں سے ایک اکبر ایس بابر سنہ 2014 میں الیکشن کمیشن میں لے کر گئے تھے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے منگل کے روز سکیورٹی کے انتظامات کرنے کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے منگل کو الیکشن کمیشن کی سکیورٹی فول پروف کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس ہے کیا؟
2014 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف رکن اکبر ایس بابر نے پارٹی کی اندرونی مالی بے ظابطگیوں کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی جس میں انہوں نے یہ الزام عائد کیا کہ پارٹی کو ممنوعہ ذرائع سے فنڈز موصول ہوئے اور مبینہ طور پر دو آف شور کمپنیوں کے ذریعے لاکھوں ملین ڈالرز ہنڈی کے ذریعے پارٹی کے بینک اکاونٹس میں منتقل کیے گئے۔
اس درخواست میں انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ تحریک انصاف نے بیرون ملک سے فنڈز اکٹھا کرنے والے بینک اکاونٹس کو بھی الیکشن کمیشن سے خفیہ رکھا۔
ممنوعہ فنڈنگ پر قانون کیا کہتا ہے؟
سیاسی جماعتوں کو پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے آرٹیکل 13 کے تحت مالی سال کے اختتام سے 60 روز کے اندر الیکشن کمیشن میں بینک اکاؤنٹس کی آڈٹ رپورٹ جمع کروانا ہوتی ہے جس میں سالانہ آمدن اور اخراجات، حاصل ہونے والے فنڈز کے ذرائع، اثاثے اور واجبات شامل ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ پارٹی کا سربراہ الیکشن کمیشن میں ایک سرٹیفکیٹ بھی جمع کروانے کا مجاز ہوتا ہے جس میں یہ اقرار کیا جاتا ہے کہ تمام مالی تفصیلات درست فراہم کی گئی ہیں اور کوئی بھی فنڈ کسی ممنوعہ ذرائع سے حاصل شدہ نہیں ہے۔
پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے شق (15) کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے کا ڈیکلئیریشن جاری کر سکتی ہے جو کہ غیر ملکی فنڈز کے ذریعے قائم کی گئی ہو یا اس کے قیام کا مقصد پاکستان کی خود مختاری یا سالمیت کے خلاف ہو یا دہشت گردی میں ملوث ہو۔
قانون کے مطابق ڈیکلئیریشن جاری ہونے کے 15 روز کے اندر معاملہ سپریم کورٹ بھیجا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ میں فیصلہ برقرار رکھنے کی صورت میں پارٹی تحلیل قرار دی جاتی ہے۔
قانون کے مطابق سیاسی جماعت تحلیل ہونے کی صورت میں اس جماعت کے تمام صوبائی اور وفاقی ارکان پارلیمنٹ کی رکنیت بھی منسوخ ہو جائے گی۔
سابق وزیر قانون خالد رانجھا نے ایک انٹرویو میں اردو نیوز کو بتایا تھا کہ بیرون ملک فنڈنگ کے ساتھ ایک سنگین نوعیت کا معاملہ اکاؤنٹس ظاہر نہ کرنے کا ہے۔ ’اگر کوئی چیز پوشیدہ رکھی گئی ہے تو یہ بددیانتی ہے اور اسکے نتائج قانون کے مطابق آسکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر تو واضح ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر کوئی چیز پوشیدہ رکھی گئی ہے تو آرٹیکل 61 اور 62 کے تحت بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔