Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک انصاف کا لانگ مارچ روکنے والے پولیس افسران کو ہٹایا جا رہا ہے؟

پنجاب پولیس کے ایک اعلٰی افسر نے بتایا کہ ’تحریک انصاف نے 30 افسران کی فہرست تیار کر رکھی ہے۔‘ فوٹو: سکرین گریب
پاکستان میں سیاسی روایت ہے کہ جب بھی کوئی حکومت تبدیل ہوتی ہے چاہے وہ کسی صوبے میں ہو یا وفاق میں، سب سے پہلے پولیس افسران کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔
پنجاب میں جب سے تحریک انصاف نے دوبارہ حکومت سنبھالی ہے تو ان پولیس افسران کو چُن چُن کر ہٹایا جا رہا ہے جن پر الزام لگا تھا کہ انہوں نے 25 مئی کو ہونے والے تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو ناکام بنانے میں کردار ادا کیا تھا۔
وزیراعلٰی پرویز الٰہی نے سب سے پہلے لاہور کی پولیس قیادت کو تبدیل کیا۔ سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ کو ہٹا کر غلام محمود ڈوگر کو پولیس چیف لگایا گیا ہے۔
اسی طرح ڈی آئی جی آپریشن لاہور سہیل چودھری کو ہٹا کر ان کا تبادلہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ میں کر دیا گیا۔
عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل نے سہیل چودھری کی تصویر لگا کر ٹویٹ کیا کہ ’جس طرح سہیل چودھری نے غیرقانونی کام کیے وہ قابل شرم ہیں۔ تحریک انصاف ان اقدامات کو نہیں بھولے گی اور قانون اپنا راستہ بنائے گا۔‘
اس ٹویٹ کے بعد سہیل چودھری کو سی ٹی ڈی سے ہٹا کر صوبہ بدر کر دیا گیا اور ان کی خدمات وفاق کے حوالے کر دی گئیں۔ شہباز گل نے دوبارہ نوٹیفیکیشن کے ساتھ ٹویٹ کیا کہ ’اب ان کا احتساب ہو گا جنہوں نے عورتوں، بچوں اور وکلا پر تشدد کیا۔ یہ ابھی پہلا سٹیپ ہے، اب قانون اپنا راستہ بنائے گا۔ خان 25 مئی بھولا نہیں اور نہ بھولے گا۔‘
سہیل چودھری ہی نہیں بلکہ شہباز گل کو 17 جولائی کے ضمنی انتخابات میں الیکشن کمیشن کے حکم پر حراست میں لینے والے ڈی پی او مظفر گڑھ کیپٹن ریٹائرڈ طارق ولایت اور ایس پی انویسٹی گیشن ضیا اللہ کو بھی عہدوں سے ہٹا کر سینٹرل پولیس آفس میں رپورٹ کرنے کا کہا گیا ہے۔
پنجاب پولیس کے ایک اعلٰی افسر نے اردو نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تحریک انصاف نے کُل 30 افسران کی فہرست تیار کر رکھی ہے جو ان کے خیال میں 25 مئی کا لانگ مارچ روکنے کے ذمہ دار ہیں۔

چودھری شفقت محمود کا کہنا ہے کہ’ہم ان افسران کو ایک مثال بنا دیں گے جنہوں نے 25 مئی کو بے قصور افراد پر تشدد کیا‘ (فوٹو: گیٹی امیجز)

انہوں نے بتایا کہ ’وزیراعلٰی چودھری پرویز الٰہی نے نئے آئی جی فیصل شاہکار کو ان افسران نے خلاف تادیبی کارروائی کا کہا تو آئی جی نے بتایا کہ اس طریقے سے فورس کا مورال ڈوان ہو گا۔ انہوں نے سہیل چودھری  کو صوبہ بدر نہ کرنے پر وزیراعلٰی کو قائل بھی کر لیا تھا لیکن بعد میں صورت حال بدل گئی۔ اب تک پی ٹی آئی کی فہرست میں سے 50 فیصد افسران کے تبادلے کیے جا چکے ہیں جبکہ محرم کی وجہ سے باقی تبادلے روکے گئے ہیں۔ تاہم لگ یہی رہا ہے کہ محرم کے بعد باقی افسران کو بھی ہٹایا جائے گا۔‘
تحریک انصاف کے رہنما چودھری شفقت محمود نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پولیس کو سیاسی جماعتوں کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے، ہم ان افسران کو ایک مثال بنا دیں گے جنہوں نے 25 مئی کو بے قصور افراد پر تشدد کیا۔ ایک ایک پولیس افسر کا چہرہ ہمیں یاد ہے جنہوں نے ایک غیرقانونی حکومت کے احکامات مانے اور قانون کی خلاف ورزی کی۔ ہمارے کارکنان کا یہ پُرزور مطالبہ ہے اور ہم اب اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘
دوسری طرف اس وقت کے پنجاب کے وزیر داخلہ عطاللہ تارڑ سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کا پولیس کے افسران کے خلاف اس طرح کارروائی کرنا ایک خطرناک رویہ ہے۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ پولیس نے وہی کیا جو انہیں اس وقت کی حکومت نے پالیسی کے مطابق حکم دیا اور ہم نے شرپسندوں کو وفاق پر چڑھائی کرنے سے روکا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف انتقامی کارروائیاں نہیں کروائیں۔ اگر مقدمے بھی درج ہوئے ہیں تو وہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے پر درج کیے گئے جبکہ اب حکومت ان کے پاس ہے تو دیکھیں انہوں نے کس طرح نذیر چوہان اور ان کے بیٹے ہر تشدد کروایا ہے۔ وہ تو کیمروں میں بھی ریکارڈ ہے۔ یہ ایک فاشسٹ جماعت ہے۔‘

پنجاب میں ان پولیس افسران کو چُن چُن کر ہٹایا جا رہا ہے جن پر الزام ہے کہ انہوں نے لانگ مارچ کو ناکام بنانے میں کردار ادا کیا(فوٹو: سوشل میڈیا)

پولیس میں حالیہ اکھاڑ پچھاڑ بات کرتے ہوئے سابق آئی جی پنجاب خواجہ خالد فاروق کا کہنا تھا کہ پولیس کو سیاسی بنایا جا رہا ہے جو کہ درست رجحان نہیں۔
’تبادلے کرنا یا اپنی ٹیم بنانا ایک نارمل کام ہے لیکن پولیس افسروں کو انتقام کا نشانہ بنانا یا پھر یہ کہنا کہ فلاں افسر فلاں جماعت کا ہے یا فلاں افسر دوسری جماعت کا ہے تو میرے خیال میں یہ رویہ درست نہیں اس پر نظرثانی کرنی چاہیے۔‘
ان کے بقول ’پولیس ایک پروفیشنل فورس ہے اور اسے مزید پروفیشنل بنانے کی طرف کام کرنا چاہیے۔‘
سابق آئی جی شوکت جاوید بھی سمجھتے ہیں کہ پولیس افسران کے خلاف سوشل میڈیا پر کیمپین چلانا ایک درست عمل نہیں۔
’یہ ایک ڈسپلنڈ فورس ہے اگر کسی کو کسی بھی افسر کے خلاف کوئی شکایت ہے تو اس کا سسٹم کے اندر ہی ایک طریقہ کار موجود ہے، اس کو فالو کرنا چاہیے۔‘
وزیراعلٰی پرویز الٰہی نے ڈاکٹر یاسمین راشد کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے جو ان مقدمات کا جائزہ لے گی جو تحریک انصاف کے کارکنوں کے خلاف درج کیے گئے۔

شیئر: