سوات میں سکیورٹی خدشات اور سیاحت، اصل صورتحال کیا ہے؟
سوات میں سکیورٹی خدشات اور سیاحت، اصل صورتحال کیا ہے؟
جمعرات 11 اگست 2022 5:59
رائے شاہنواز، فیاض خان -اردو نیوز
مقامی صحافی انور انجم کے مطابق مٹہ کے بازار میں سیاحوں کے گروپ سیر و تفریح کے لیے موجود ہیں۔ فائل فوٹو
گرمیوں میں پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے پرفضا مقامات سیاحوں کی توجہ کا خاص مرکز رہتے ہیں۔ تاہم حال ہی میں سوات کے علاقے مٹہ میں مبینہ طور پر طالبان کی جانب سے پولیس افسر کو گولی مار کر زخمی کرنے کے واقعے نے سیاحوں پر بھی اثر ڈالا ہے۔
اس واقعے کے بعد پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے کئی سیاحتی کمپنیوں نے گروپ ٹورز کو روک دیا ہے۔ ان کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ سفر کرنے والے کئی افراد نے اپنی بکنگ منسوخ کی ہیں۔
لاہور میں ٹورارزم کے لیے کام کرنے والی ایک کمپنی پاکستان ٹریول گائیڈ کے ایک نمائندے محمد عارف نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم نے گروپ ٹور روک دیے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے بکنگ کینسل کی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’حکومت کی طرف سے یا براہ راست ہمیں کسی نے نہیں روکا ابھی ہم کسٹمائزڈ ٹور کروا رہے ہیں۔ اگر کوئی فیملی یا دوست کوئی ٹور پیکج مانگیں تو ہم دے رہے ہیں۔ پہلے ہمارا خیال تھا کہ شاید بارشوں اور سیلاب کے خدشے کی وجہ سے گروپ ٹورز میں کمی آئی ہے لیکن اب ہمیں لگ رہا ہے کہ لوگ سوات سے آنے والی خبروں سے تھوڑا تذبذب کا شکار ہیں۔‘
لاہور ہی کے ایک شہری محمد اشفاق جو آئندہ ہفتے اپنی فیملی کے ساتھ سوات جانے کا ارادہ رکھتے تھے ،نے بتایا کہ انہوں نے ٹور کمپنی سے اپنی بکنگ کینسل کروا دی ہے۔ ’سوشل میڈیا پر عجیب غریب خبریں گردش کر رہی ہیں۔ اور یہی سن رہے ہیں کہ گڑ بڑ ہے، تو میں نے سوچا کہ ابھی انتظار کرنا چاہیے اور صورت حال واضح ہو جائے تو پھر دوبارہ دیکھیں گے۔ ہم لوگ گبین جبہ جانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اور وہاں جانے کے لئے مٹہ سے گزر کر ہی جانا ہے جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا ہے۔‘
خیال رہے کہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں کچھ افراد مبینہ طور پر دو فوجی افسران اور ایک پولیس افسر سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ اور پولیس افسر کو زخمی حالت میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا ہے۔
لاہور کی ایک اور نجی ٹور کمپنی کی نمائندہ آمنہ شاہد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کی کمپنی نے بھی بکنگ کینسل ہونے پر گروپ ٹورز وقتی طور پر روک دیے ہیں۔
’جب آپ گروپ ٹور کرواتے ہیں اس میں سے اگر تین سے چار افراد بکنگ کینسل کر دیں تو باقی افراد کو وہ ٹور کروانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور ابھی ہماری کمپنی اتنی بڑی نہیں کہ مالی نقصان برداشت کر سکے اس لیے ہم نے اپنے دو گروپ ٹور کینسل کیے ہیں جو آنے والے دنوں میں ہونے تھے۔‘
آمنہ شاہد نے مزید بتایا کہ ’البتہ سوات میں ہمارے جو پارٹنر ہوٹل ہیں جہاں ہم اپنے کسٹمرز کو ٹھہراتے ہیں وہ بتا رہے ہیں حالات نارمل ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا ایک ایسی چیز ہے جس پر لوگ آج کل زیادہ یقین کرتے ہیں۔ دیگر سیاحتی مقامات پر ہمارے گروپ ٹورز جا رہے ہیں۔ یہ صورت حال صرف سوات کے حوالے سے پیش آرہی ہے۔‘
سوات میں امن و امان کی کیا صورتحال ہے؟
سوات کے مقامی صحافی انور انجم نے اردو نیوز کو بتایا کہ مٹہ میں جو واقعہ پیش آیا اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر اس کا سوات کے امن اور ماحول پر کوئی اثر نہیں پڑا، خوف کی فضا ہے اور نہ ہی سکیورٹی کے خدشات موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مٹہ کے دور دراز پہاڑی علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا ہے جبکہ پورے سوات میں اس وقت امن کی فضا قائم ہے۔
صحافی انور انجم نے مزید بتایا کہ آج بھی سوات، کالام، گبین جبہ کے سارے ہوٹلز سیاحوں سے بھرے ہوئے ہیں، مالم جبہ میں ایک کلچر نائٹ کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاحت اور کاروبار دونوں پر کوئی اثر نہیں پڑا بلکہ سیاحوں کی بڑی تعداد 14 اگست کے لیے سوات انے کے منصوبے بنارہی ہے۔
سوشل میڈیا پر مختلف افواہوں سے متعلق انور انجم کا کہنا تھا کہ من گھڑت خبریں پھیلا کر لوگوں میں خوف پھیلایا جا رہا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ مٹہ کے بازار میں سیاحوں کے گروپ سیر و تفریح کے لیے موجود ہیں۔
خیبر پختونخوا ٹورازم اتھارٹی کے ترجمان سعد بن اویس نے اردو نیوز کو بتایا کہ سوات سمیت تمام سیاحتی علاقوں میں امن ہے اور کسی قسم کا کوئی سیکورٹی رسک موجود نہیں، اگر ایسے حالات ہوتے تو ٹوارزم اتھارٹی کی جانب سے ضرور ایڈوائزری جاری ہوتی۔
ترجمان محکمہ سیاحت نے بتایا کہ اس وقت سوات، کالام اور مالم جبہ کے لیے سب سے زیادہ سیاح جا رہے ہیں جن میں بڑی تعداد کراچی اور پنجاب کے سیاحوں کی ہے۔
بدھ کو میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے آئی جی پولیس خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری نے کہا تھا کہ سوات کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کی نقل و حرکت کی اطلاع ملی تھی جس کے بعد فورسز اور ان کے درمیان فائرنگ ہوئی۔
آئی جی معظم جاہ کے مطابق فائرنگ کے نتیجے میں ایک افسر زخمی ہوا جبکہ دہشت گردوں کا زیادہ نقصان ہوا۔ آئی جی معظم جاہ انصاری نے کہا کہ ایسا تاثر دینا غلط ہے کہ طالبان کا اثر بڑھ رہا ہے۔
انسپکٹر جنرل پولیس خیبرپختونخوا نے میڈیا کو بتایا کہ لوئر دیر میں ایم پی اے پر فائرنگ کے واقعے کی تفتیش کر رہے ہیں تاہم اس معاملے کو بھتہ خوری سے جوڑنا قبل از وقت ہوگا۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی تقریر میں انکشاف کیا کہ طالبان کی جانب سے ان کے وزراء اور ایم پی ایز کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ عمران خان نے اسے بھی سازش کا حصہ قرار دیا ہے۔