بلوچستان میں سیلاب سے ہلاکتیں، ’نقصانات کے ازالے کے لیے35 ارب روپے درکار‘
بلوچستان میں سیلاب سے ہلاکتیں، ’نقصانات کے ازالے کے لیے35 ارب روپے درکار‘
پیر 15 اگست 2022 16:08
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں مون سون کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ کوہ سلیمان سے ملحقہ علاقوں میں مسلسل آٹھ سے 10 گھنٹے تک طوفانی بارش نے موسیٰ خیل، بارکھان اور کوہلو کے اضلاع کو متاثر کیا ہے۔
موسیٰ خیل کے درجنوں دیہات زیر آب آگئے جبکہ سیلابی ریلوں میں بہہ کر 9 افراد ہلاک اور تین زخمی ہوگئے ہیں۔ یوں صوبے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر اب 196 تک پہنچ چکی ہے۔
بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے ازالے اور متاثرین کی بحالی کے لیے کم از کم 35 ارب روپے کی ضرورت ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں بارش ہوئی۔ ڈپٹی کمشنر موسیٰ خیل یاسر دشتی نے اردو نیوز کو بتایا کہ سلیمان پہاڑی سلسلے میں گزشتہ روز آٹھ سے 10 گھنٹے مسلسل اور طوفانی بارش ہوئی جس کی وجہ سے پہاڑوں سے آنے والے پانی نے ریلوں کی شکل میں آبادیوں کا رخ کرلیا۔
ان کا کہنا تھا کہ تحصیل درگ اور سب تحصیل راڑہ شم سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور سینکڑوں مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ ڈپٹی کمشنر کے مطابق کنگری، توئی سر، درگ، زمری، تیر ایسوٹ میں نو افراد ہلاک ہوئے جن میں دو بچے چھت گرنے سے اور باقی سات افراد سیلابی ریلوں میں بہنے سے ہلاک ہوئے۔ تمام افراد کی لاشیں نکال لی گئی ہیں۔
پرووینشل ڈیزاسسٹرمینجمنٹ اتھارٹی(پی ڈی ایم اے) کے مطابق بلوچستان میں بارشوں اور سیلاب سے ہلاکتوں کی تعداد 196 تک پہنچ چکی ہے۔
ڈپٹی کمشنر موسیٰ خیل نے بتایا کہ ضلعے کے بیشتر دیہاتوں کا آپس میں رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔ درگ تا موسیٰ خیل کا راستہ جو ضلعے کو پنجاب سے ملاتا ہے، اب تک ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند ہے تاہم کنگری کے راستے کو جزوی طور پر بحال کردیا گیا ہے۔
یاسر دشتی کے مطابق ایک ڈیم بھی پانی کا دباؤ برداشت نہ کرتے ہوئے ٹوٹ گیا جبکہ ایک اور ڈیم کو نقصان پہنچا ہے تاہم علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ ٹوٹنے والے ڈیموں کی تعداد تین ہے۔
موسیٰ خیل کے رہائشی پیپلز پارٹی کے علاقائی رہنما عبداللہ موسیٰ خیل نے اردو نیوز کو بتایا کہ بارش اتوار کی صبح شروع ہوئی اور شام تک بغیر وقفے کے جاری رہی۔ ایسی طوفانی بارش ہمارے بزرگوں نے بھی اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھی ، بلند و بالا پہاڑی سلسلے سے بہت زیادہ پانی آیا جو گھروں کے درودیوار سمیت سب سامان اپنے ساتھ بہا کر لے گیا جبکہ لوگوں نے بھاگ کر اونچے مقامات پر پناہ لی۔
ان کا کہنا تھا کہ درگ، راڑہ شم، تیر ایسوٹ، توئی سر، خان محمد کوٹ، اندر پڑاور تحصیل صدر بہت زیادہ متاثر ہوئے اور وہاں سینکڑوں افراد بے گھر ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اموات کی تعداد کم از کم 12 ہے، راستے بند ہونے سے انتظامیہ بہت سے علاقوں تک نہیں پہنچ سکی، اس لیے انہیں ہلاکتوں کا درست اندازہ نہیں۔
موسیٰ خیل میں بجلی کے 10 سے زائد کھمبے بھی سیلاب میں بہہ گئے جس کی وجہ سے اتوار کو سہ پہر تین بجے سے اب تک بجلی غائب ہے۔
کوہ سلیمان سے ملحقہ ضلع بارکھان اور کوہلو کے اضلاع میں بھی موسلا دھار بارش ہوئی۔
بارکھان سے مقامی صحافی ظفر کھیتران نے بتایا کہ ضلع میں 100 سے زائد مکانات منہدم ہوئے ہیں تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ یونین کونسل وٹاکڑی، نہار کوٹ، یونین کونسل صدر سمیت 10 سے زائد یونین کونسلوں میں ٹماٹر، مرچ، کپاس اور سیب کی تیار فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔
دکی میں رات کو ہونے والی طوفانی بارشوں کے بعد سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی اور تحصیل لونی کے نشیبی علاقے زیرآب آگئے۔ نرہن ندی اور سکھریالی ندی میں اونچے درجے کے سیلابی ریلے کے باعث علاقے کا زمینی رابطہ منطقع ہوگیا۔ تیار فصلوں کو نقصان پہنچا۔ گھر منہد م ہوئے۔ لوگوں نے خواتین ا ور بچوں کے ہمراہ کھلے آسمان تلے رات پانی کا بہاؤ کم ہونے کے انتظار میں گزاری۔
اسسٹنٹ کمشنر دکی محمد حنیف کے مطابق زمینی رابطے بحال کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ متاثرہ علاقوں کے لئے کوئٹہ سے امدادی سامان طلب کرلیا گیا ہے۔
خضدار میں بھی بارشوں کے باعث گوادر تو روتو ڈیرو ایم ایٹ شاہراہ کا ایک حصہ ونگو ہل کے مقام پر سیلاب میں بہہ گئی جس سے اس شاہراہ کے ذریعے سندھ اور بلوچستان کا رابطہ منقطع ہوگیا ۔
ڈپٹی کمشنر خضدار محمد الیاس کبزئی نے شہریوں کو اس سڑک پر سفر نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
کوہلو میں بھی آٹھ گھنٹے تک مسلسل بارش ہوئی جس کے بعد سیلابی ریلے آبادیوں میں داخل ہوگئے ۔ نیصوبہ ڈیم میں پانی زیادہ ہو جانے کی وجہ سے سے بلال ٹاؤن، کلی جمعہ خان، کلی میر نور احمد اور ملحقہ آبادیاں زیرآب آگئیں۔ تنگہ ندی اور سینجاڑ ندی میں طغیانی کی وجہ سے نشیبی علاقوں میں درجنوں کچے مکانات منہدم ہوگئے تاہم جانی نقصان نہیں ہوا۔
سبی اور لہڑی میں بھی موسلا دھار بارشوں سے کچے مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ دریائے لہڑی میں ایک لاکھ 34 ہزار کیوسک کا سیلابی ریلا گزرا جس سے دریائے کے نزدیک رہنے والی آبادیوں میں پانی داخل ہوگیا۔ لہڑی کے آٹھ دیہات متاثر ہوئے۔ سبی کے علاقے مل گشکوری میں بھی پانی داخل ہونے سے درجنوں مکانات کو نقصان پہنچا۔
اُدھر لسبیلہ میں بارش کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق اوتھل میں لنڈا کے قریب بنایا گیا متبادل راستہ سیلاب بہا لے گیا ہے جس کی وجہ سے گزشتہ تین دنوں سے کوئٹہ کراچی شاہراہ ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند ہے۔ سینکڑوں لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ پھلوں اور سبزیوں سے لدے درجنوں ٹرک بھی تین دن سے کھڑے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر لسبیلہ مراد کاسی کا کہنا ہے کہ پانی کا بہاؤ کم ہونے کے بعد کوئٹہ کراچی شاہراہ کی بحالی کا کام شروع کیا جائے گا۔
دوسر ی جانب گوادر میں ساحل پر سمندر کے رواں مون سون کے سیزن کے دوسرے ڈپریشن کے اثرات نمودار ہونا شروع ہوگئے ۔ بحیرہ عرب میں ہوا کا شدید کم دباؤ کے نتیجے میں سمندر میں طغیانی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق گوادر کے مغربی ساحل پر سمندری لہریں میرین ڈرائیور کے پشتے سے ٹکرا کر سڑک تک پہنچ رہی ہیں ۔ضلع میں شدید طوفانی ہوائیں بھی چل رہی ہیں ۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ بارشوں کا یہ سلسلہ آئندہ تین دنو ں تک جاری رہے گا جس سے وسطی اور ساحلی بلوچستان سمیت صوبے کے 18 اضلاع متاثر ہوں گے۔ پی ڈی ایم اے نے متعلقہ اضلاع میں الرٹ جاری کیا ہے۔
بحالی کیلئے 35 ارب روپے کی ضرورت
بلوچستان حکومت نے وفاقی حکومت کو بتایا ہے کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے ازالے اور متاثرین کی بحالی کیلئے کم از کم 35 ارب روپے کی ضرورت ہے۔
سرکاری اعلامیہ کے مطابق یہ بات وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت سیلاب سے متعلق اجلاس میں کہی جس میں انہوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔
وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ بلوچستان میں سیلاب سے ہونےوالے نقصانات کے ازالے کیلئے 15 ارب روپے اور بحالی کے مرحلے کیلئے 20 ارب روپے درکار ہیں۔ وزیراعلیٰ نے بلوچستان کی جانب سے وفاقی اداروں کی شراکت سے نقصانات کے مشترکہ سروے پر آمادگی کا اظہار کیا۔
وزیراعلیٰ کی زیر صدارت ایک اور اجلاس میں نوجوان سرکاری افسران پر مشتمل خصوصی ٹیمیں تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔سرکاری اعلامیہ کے مطابق یہ خصوصی ٹیمیں نقصانات کے سروے میں متاثرہ اضلاع کی انتظامیہ کی مدد کرے گی تاکہ سروے کا کام جلد مکمل ہوسکے۔