پیمرا نے کون کون سے سیاسی رہنماؤں کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگائی؟
پیمرا نے کون کون سے سیاسی رہنماؤں کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگائی؟
اتوار 21 اگست 2022 12:11
بشیر چوہدری -اردو نیوز، اسلام آباد
پیمرا نے سابق وزیراعظم عمران خان کی تقریر کو براہ راست نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی تقاریر کو اظہار رائے کی آزادی کے آئینی حق سے تجاوز قرار دے کر ان کی تقریر کو براہ راست نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
پیمرا نوٹیفکیشن کے مطابق ’عمران خان کی تقریر پر پابندی پیمرا آرڈیننس 2002 کے سیکشن 27 کے تحت لگائی گئی ہے۔‘
گزشتہ شب سابق وزیرِاعظم عمران خان کی ایف نائن پارک اسلام آباد میں تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ ریاستی اداروں کے خلاف مسلسل بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں۔
ریاستی اداروں اور افسران کے خلاف ان کے بیانات آرٹیکل 19 کی بھی خلاف ورزی ہیں۔
عمران خان نے اپنے خطاب میں ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کے خلاف ایکشن کی دھمکی دی تھی اور کہا تھا کہ اسلام آباد کے آئی جی، ڈی آئی جی اور ریمانڈ دینے والی اس خاتون ’مجسٹریٹ‘ پر کیس کریں گے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
عمران خان کی تقریر میڈیا پر براہ راست نشر کیے جانے کے حوالے سے ممتاز تجزیہ کار زاہد حسین نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پیمرا کے پاس قانون کے مطابق قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی اور ان پر پابندی عائد کرنے کا اختیار بھی موجود ہے لیکن پاکستان میں اس کا اطلاق سلیکٹیو‘ ہوتا ہے۔ پیمرا صرف ان کے خلاف کارروائی کرتا اور پابندی عائد کرتا ہے جو حکومت سے باہر ہوتے ہیں۔ ایسی پابندیوں کا نقصان بظاہر یہ ہوتا ہے کہ سیاسی رہنما براہ راست اپنی بات عوام تک نہیں پہنچا سکتے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سیاسی رہنما بھی بعض اوقات طے شدہ حدود سے آگے نکل جاتے ہیں جس طرح عمران خان نے گزشتہ روز دھمکیاں لگائیں لیکن پیمرا کو پابندی کا اطلاق کرتے وقت بہت سے عناصر کو سامنے رکھنا چاہیے کیونکہ پابندیاں بحرحال کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتیں۔ نواز شریف، مولانا فضل الرحمان، مریم نواز پر پابندیاں لگانے سے کچھ فائدہ نہیں ہوا تو عمران خان پر بھی پابندی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔‘
ماہر قانون اکرام چودھری نے پیمرا کے اس فیصلے کے قانونی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ نواز شریف اور الطاف حسین پر عائد کی گئی۔ پابندیوں کے پیچھے عدالتی فیصلے تھے جبکہ عمران خان کی تقریر کو نفرت پر مبنی قرار دے کر پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں پیمرا نے جو پھرتی دکھائی ہے اس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ اگر یہ معاملہ عدالت میں گیا اور چیلنج ہوا تو پیمرا کے لیے دفاع کرنا ممکن نہیں ہوگا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’عمران خان کی تقاریر کے براہ راست پابندی عائد کرنے سے قبل پیمرا کو چاہیے تھا کہ وہ تمام ٹی وی چینلز کو نوٹس جاری کرتا تاکہ وہ اس حوالے سے اپنا نکتہ نظر بھی بیان کرتے جس کے بعد فیصلہ کیا جاتا۔‘
پیمرا نے کس کس سیاسی رہنما کی تقریر نشر کرنے پر پابندی لگائی؟
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پیمرا نے کسی سیاسی رہنما کی تقاریر پر کوئی پابندی عائد کی ہو بلکہ اس سے قبل پاکستان کے تین مرتبہ کے منتخب وزیرِاعظم نواز شریف، متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین اور نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور کئی دیگر سیاسی رہنماؤں کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی رہی یا انھیں سینسر شپ کا سامنا رہا ہے۔
نواز شریف کے اپنے دور حکومت میں بھی بعض وزراء کی تقاریر بلکہ شکلیں بھی ٹی وی پر دکھانے کی غیر اعلانیہ پابندی رہی ہے۔
ستمبر 2020 میں جب اپوزیشن جماعتوں نے اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا تو اس وقت کی حکومت نے سابق وزیرِاعظم نواز شریف (جو علاج کے سلسلے میں لندن میں مقیم تھے) کا خطاب رکوانے کی کوششیں کی لیکن تمام چینلز نے نواز شریف کا لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے کیا گیا خطاب نشر کیا۔ جس کے بعد اکتوبر میں پیمرا نے اشتہاری ملزمان کا خطاب میڈیا پر نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی۔
خیال رہے کہ پیمرا اس سے قبل سابق صدر پرویز مشرف جو کہ اشتہاری مجرم تھے جبکہ طاہرالقادری اور عمران خان جو اشتہاری ملزمان تھے ان پر پابندی کی درخواست اظہار رائے کے خلاف قرار دے کر مسترد کر دی تھی۔
پیمرا کی جانب سے اشتہاری ملزمان کی تقاریر پر پابندی کے بعد نواز شریف کے ساتھ ساتھ لندن میں مقیم سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو معاشی امور کے حوالے سے میڈیا کو انٹرویوز دیا کرتے تھے اور عمران خان حکومت کی معاشی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتا تھے ان پر بھی پابندی عائد ہو گئی۔
2018 میں بھی لاہور ہائی کورٹ نے جب پیمرا کو حکم دیا کہ وہ عدلیہ مخالف تقاریر روکے تو اسے نواز شریف اور مریم نواز کی تقاریر پر پابندی کہا گیا۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے بعد ازاں اس حکم نامے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کا حکم نامہ پیمرا کے لیے تھا، کسی سیاسی جماعت کے لیے نہیں تھا لیکن اس دوران نواز شریف اور مریم نواز کی تقاریر اگر نشر ہوتی تھیں تو ان کو سینسر کیا جاتا تھا۔
اس سے قبل ستمبر 2015 میں جب ملک میں نواز شریف کی حکومت تھی، متحدہ کے بانی نے لندن سے ٹیلی فونک خطاب میں پاکستان مخالف ریمارکس دیے جس کے بعد شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔
لاہور ہائی کورٹ میں ان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست دائر ہوئی۔ جس کی سماعت کے دوران عدالت نے پیمرا کو متحدہ کے بانی کی تقریر نشر کرنے پر پابند عائد کرنے کا خصوصی نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم دیا۔
اگلی سماعت میں پیمرا نے جب نوٹیفکیشن پیش کیا تو عدالت نے اسے عمومی نوٹفیکیشن قرار دے کر برہمی کا ظہار کیا اور کہا کہ ایسا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے کہ جس کے تحت پاکستانی نیوز چینلز کی سکرین پر متحدہ کے بانی کی آواز اور تصویر دونوں دکھانے اور سنانے پر پابندی ہو۔
یہ پابندی صرف الیکٹرونک میڈیا پر ہی نہیں پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات پر بھی عائد کی گئی جس کے بعد گزشتہ سات سال سے متحدہ کے بانی پاکستانی میڈیا کے ذریعے اپنا کوئی پیغام اپنے ورکرز تک پہنچانے سے قاصر ہیں۔