ماتحت عدلیہ میں کوئی مسٹر ایکس یا وائے نہیں: چیف جسٹس ہائیکورٹ
ماتحت عدلیہ میں کوئی مسٹر ایکس یا وائے نہیں: چیف جسٹس ہائیکورٹ
بدھ 31 اگست 2022 16:47
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
عدالت میں پیشی کے وقت عمران خان کے ساتھ پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما بھی موجود تھے۔ (فوٹو: سکرین گریب)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں عمران خان کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا اور ان کے وکیل حامد خان کو سوچ سمجھ کر سات روز میں جواب جمع کروانے کی ہدایت کی ہے۔
بدھ کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سابق وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس پر سماعت کی۔
عمران خان کی جانب سے سینئیر قانون دان حامد خان عدالت میں پیش ہوئے جبکہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف اور ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون عدالت میں موجود رہے۔
عدالت نے سینئیر قانون دان منیر اے ملک، مخدوم علی خان اور پاکستان بار کونسل کے ایک نمائندے کو عدالتی معاون مقرر کر دیا۔
عدالت کا ماحول کیا تھا؟
سابق وزیراعظم عمران خان کی پیشی کے موقعے پر سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے تھے۔
سینکڑوں پولیس اہلکاروں کے علاوہ رینجرز کے دستے تعینات کیے گئے تھے جبکہ بغیر پاسز کے وکلا اور صحافیوں کا بھی احاطہ عدالت میں داخلہ ممنوع تھا۔ اس سے قبل بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہائی پروفائل کیسز زیر سماعت رہے تاہم بدھ کو عمران خان کی پیشی کے موقع پر یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اسلام آباد پولیس کی تمام فورس ہائی کورٹ میں ہی تعینات کر دی گئی ہو۔
عمران خان عدالت میں پہنچے تو وکلا کے پیچھے دوسری قطار میں شاہ محمود قریشی کے دائیں جانب نشست پر جا بیٹھے۔
کمرہ عدالت میں محدود داخلے کی اجازت کی وجہ سے صحافیوں کی تعداد بھی محدود تھی۔ ججز ابھی اپنے چیمبر سے کمرہ عدالت تک نہیں پہنچے تھے اس لیے موقع دیکھتے ہوئے صحافیوں نے عمران خان کی کرسی کو گھیر لیا اور ان سے غیر رسمی گفتگو کی۔
ابتدا میں عمران خان صحافیوں سے گفتگو میں ہچکچاتے رہے اور کہتے رہے کہ باہر بات کرتے ہیں۔ مقدمہ زیر التوا ہے اس پر بات نہیں کرسکتا۔
عمران خان سے متعدد بار مختلف صحافیوں نے اپنے بیان پر معذرت کرنے سے متعلق سوال کیا جس پر عمران خان کا یہی جواب ہوتا کہ ’آپ کیا مشورہ دیتے ہیں مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘
عدالت میں غیر رسمی گفتگو کے دوران اپنے بیان سے پر معذرت کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’میں نے جواب جمع کروا دیا ہے۔ کیس پر زیادہ بات نہیں کر سکتا، ججز برا مان جائیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں تو سکیورٹی دیکھ کر حیران ہوں، اتنی پولیس تو میں نے کبھی عدالت میں دیکھی ہی نہیں۔ ہم نے تو کسی کارکن کو ہائی کورٹ پہنچنے کی کال نہیں دی تو سب کچھ بند کرنے کی ضرورت ہی کیا تھا؟‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں کہتے ہیں میں خطرناک ہوگیا ہوں تو اس پر انہوں نے کہا کہ ’وہ ایک صحافی ہے جو مجھ سے اس طرح کے سوالات بار بار پوچھتا ہے۔ میں نے اس لیے کہا میں بہت خطرناک ہوں۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ انتخابات کب تک ہوتے دیکھ رہے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ انتخابات ہوں گے اور بہت جلد ہوں گے۔ جب ان سے کیس سے متعلق سوالات پوچھے گئے تو ان کے ساتھ بیٹھے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ زیر التوا مقدمات سے متعلق سوال نہ کریں۔
عدالتی کارروائی کا آغاز ہوا تو عمران خان ہاتھوں میں تسبیح لیے عدالتی کارروائی کو بغور سنتے رہے اور اپنے بائیں اور دائیں جانب موجود شاہ محمود قریشی اور اسد عمر سے سرگوشی کرتے نظر آئے۔ ایک موقع پر اسد عمر نے عمران خان کے کانوں میں کوئی سرگوشی کی جس پر عمران خان نے مشکل سے اپنی ہنسی روکی۔
بظاہر عمران خان عدالتی کارروائی کے دوران مطمئن نظر آئے اور جواب مسترد ہونے کے باوجود اطمینان کا تاثر ان کے چہرے پر نمایاں رہا۔
عدالتی کارروائی کے دوران کیا ہوا؟
تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ اپنے مخصوص انداز میں ریمارکس دیتے رہے۔
ایک موقع پر جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی آج ختم ہو سکتی تھی لیکن جو جواب جمع کروایا گیا اس لیے یہ کیس مزید آگے بڑھ رہا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایک موقع پر ریمارکس دیے کہ ’ہماری ماتحت عدلیہ میں کوئی مسٹر ایکس مسٹر وائے نہیں ہے۔ ان کا بھی اتنا ہی احترام ہونا چاہیے جتنا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز کا ہوتا ہے۔‘
چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل سے کہا کہ آپ کے موکل نے عوامی اجتماع میں مہذب انداز میں عدالت پر سوال اٹھایا تھا اور کہا تھا کہ رات کو 12 بجے عدالتیں کیوں کھولی گئیں، عدالت جواب نہیں دیا کرتی ان کے کام بولتے ہیں اور ہماری عدالت ہر وقت مظلوم کو انصاف فراہم کرنے کے لیے کھلی رہتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آپ کا حق ہے کہ مہذب انداز میں عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید کریں۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تین سالوں سے اس عدالت نے ٹارچر کو ایک اہم معاملے کے طور پر اُٹھایا۔ سب سے بڑا ٹارچر لاپتہ افراد کا ہے اور بلوچ طلبہ کے ساتھ اسلام آباد میں پیش آنے والا رویہ ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پر عدلیہ مخالف مہم چلائی جاتی ہے۔ ’میری ایک تصویر کسی جج کے ساتھ وائرل کروائی گئی اور کہا گیا کہ یہ کوئی سیاسی لیڈر کے ساتھ موجود ہیں۔‘
عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اس کیس کو ناقابل سماعت ہونے کا بھی نکتہ اٹھایا ہے اور تفصیلی جواب دیا ہے۔ جہاں تک بات عدلیہ کی توہین کی ہے تو عمران خان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل افسر کے بارے میں یہ کہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو جواب دیا گیا وہ دیکھ کر لگتا ہے کہ آپ کے موکل کو احساس ہی نہیں کہ یہ کتنا سنجیدہ معاملہ ہے۔ جو جواب جمع کروایا گیا وہ عمران خان جیسے لیڈر کے شایان شان نہیں۔
ایک موقع پر ایڈوکیٹ جنرل جہانگیر جدون روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں فوراً روک دیا اور کہا کہ یہ عدالت کا اور عمران خان کا معاملہ ہے، آپ خاموش رہیں۔
سماعت کے اختتام پر ایڈوکیٹ جنرل ایک بار پھر بولے کہ فواد چوہدری نے کہا کہ چیف جسٹس کو معافی مانگنی چاہیے۔
اس پر چیف جسٹس بولے کہ ’فواد نے جو کہا ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں، حامد خان نے بھی عدالت کے سامنے کہا کہ ہم ان کے بیان کو اوون نہیں کرتے۔‘
عدالتی نے سات روز میں جواب جمع کروانے کی مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت آٹھ ستمبر تک ملتوی کر دی۔