یوکرین میں بڑی اجتماعی قبر دریافت، ’روس جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے‘
پولیس کا کہنا ہے کہ اجتماعی قبر سے 440 افراد کی لاشیں ملی ہیں (فوٹو: اے پی)
یوکرینی حکام کو روس کے قبضے سے چھڑائے جانے والے علاقے میں ایسی اجتماعی قبر ملی ہے جس میں 440 افراد کو دفن کیا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے علاقائی پولیس چیف کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ قبر ازیوم کے علاقے سے ملی ہے جہاں چند روز قبل ہی روسی فوج پسپا ہوئی تھی۔
پچھلے اتوار کو یوکرین کے حکام نے دعوٰی کیا تھا کہ روس کے ہزاروں فوجی اس علاقے سے نکل گئے تھے جس کو وہ طویل عرصے تک لاجسٹک مرکز کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔
روسی فوجی جاتے ہوئے بھاری مقدار میں اسلحہ اور دوسرا سامان بھی چھوڑ گئے جو قبضے میں لے لیا گیا تھا۔
پولیس چیف سرہیف بالوینوف نے سکائی نیوز کو بتایا کہ ’میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ آزاد کرائے جانے والے علاقوں میں ملنے والی سب سے بڑی اجتماعی قبر ہے، جس میں 440 لاشیں ہیں، جن میں سے کچھ زمینی فائرنگ اور کچھ ہوائی حملوں میں ہلاک ہوئے۔‘
روئٹرز آزادانہ ذرائع سے اس دعوے کی تصدیق نہیں کر سکا ہے جبکہ روس کی جانب سے بھی ابھی تک اس بارے میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے روسی فوجوں کی پسپائی کے بعد اچانک ازیوم کا دورہ کیا تھا اور یوکرینی فوجیوں کو سراہا تھا۔
انہوں نے اجتماعی قبر سامنے آنے کے بعد روس پر الزام لگایا ہے کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بوچا کے علاقے میں کیا ہوا، یہ دارالحکومت کیئف کا مضافاتی علاقہ ہے جہاں حملے کے آغاز کے وقت روسی فوج داخل ہوئی تھی۔
یوکرین اور اس کے مغربی اتحادی نے روس پر جنگی جرائم کے الزامات لگائے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اپریل میں ماریوپول پر ہونے والے حملوں میں ہزاروں کی تعداد میں عام شہریوں کونشانہ بنایا گیا۔
صدر زیلنکسی نے جمعرات کی رات ویڈیو خطاب میں کہا کہ ’روس جاتے ہوئے پیچھے اموات چھوڑ رہا ہے جس کا اسے ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔‘
دوسری جانب روس نے عام شہریوں کو نشانہ بنانے یا جنگی جرائم کا مرتکب ہونے کی تردید کی ہے۔
یوکرین کی جانب سے جنوبی علاقے میں کامیابیاں حاصل کرنے کے ایک ہفتے کے بعد یوکرینی حکام کا کہنا تھا کہ روس اپنے دفاع کو مضبوط بنا رہا ہے اور آگے بڑھنے کی رفتار کو برقرار رکھنا مشکل ہو گا۔
روسی صدر پوتن کی جانب سے ابھی تک ان کی فوجوں کو نقصان اور پیچھے ہٹنے کے حوالے سے کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔
یوکرین حکام کا کہنا ہے کہ نو ہزار مربع کلومیٹر (3400 مربع میل) کا علاقہ واپس لیا گیا ہے۔
روئٹرز کی جانب سے کپیانسک کے علاقے میں جمعرات کو بنائی جانے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عمارتیں ٹوٹی پھوٹی اور جلی ہوئی ہیں۔
اس علاقے کے ایک شخص کا کہنا تھا کہ ’بجلی ہے نہ ہی کسی سے رابطے کا کوئی اور ذریعہ، اگر ہمارے پاس ایسی کوئی چیز ہوتی تو ہم کم از کم اپنے گھروالوں سے بات کر لیتے۔‘
خیال رہے کہ روس نے 24 فروری کو پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تھا جس کے بعد سے مسلسل لڑائی جاری ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتیں ہو چکی ہیں، امریکہ اور مغربی قوتیں یوکرین کا ساتھ دے رہی ہیں اور روس پر معاشی پابندیاں بھی لگائی گئی ہیں۔
یوکرینی صدر زیلنسکی کا موقف ہے کہ ہتھیار کسی صورت نہیں ڈالے جائیں گے جبکہ دوسری جانب روسی صدر ولادیمیر پوتن کا کہنا ہے کہ کامیابی تک جنگ جاری رہے گی۔