کراچی کی مشہور دودھ پتی چائے میں مائیکرو پلاسٹک کی موجودگی کا انکشاف
کراچی کی مشہور دودھ پتی چائے میں مائیکرو پلاسٹک کی موجودگی کا انکشاف
پیر 26 ستمبر 2022 14:19
زین علی -اردو نیوز، کراچی
کلفٹن کے ساحل کی ریت کے ایک گرام میں مائیکرو پلاسٹک کے تقریبا 3 سو ذرات پائے گئے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں دودھ پتی چائے میں مائیکرو پلاسٹک کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔
مائیکرو پلاسٹک پانچ ملی میٹر سے چھوٹے ان ٹکڑوں کو کہا جاتا ہے جو پلاسٹک کی شکست و ریخت کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف اور جناح یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ مائیکرو پلاسٹک کے ذرات نہ صرف ماحول کی آلودگی کا سبب بن رہے ہیں بلکہ ہوا، پانی، خوراک یہاں تک کہ ہمارے جسموں کو بھی آلودہ کر رہے ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے تکنیکی مشیر محمد معظم خان کا کہنا ہے کہ کراچی شہر کے بیشتر مقامات سے مائیکرو پلاسٹک کے نمونے ملے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جناح یونیورسٹی برائے خواتین نے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے تعاون سے ماحول میں مائیکرو پلاسٹک کے مقدار کے تعین کے لیے ایک سٹڈی کا آغاز کیا۔
اس سٹڈی کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ساحل کے ساتھ ساتھ مائیکرو پلاسٹک کی مقدار خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے۔
کراچی کے علاقے کلفٹن کے ساحل کی ریت کے ایک گرام میں مائیکرو پلاسٹک کے تقریبا 3 سو ذرات پائے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ساحلی پٹی میں پلاسٹک کی آلودگی کی انتہائی بلند سطح کی نشاندہی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ زوالوجی کی سربراہ پروفیسر رعنا ہادی کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کا آغاز عام آدمی کے خوراک کے تجزیے سے کیا گیا۔
انہوں نے بتایا ’ہم نے اپنی تحقیق کا آغاز کراچی کی سب سے مشہور مشروب دودھ پتی چائے سے کیا اور شہر کے مختلف علاقوں سے دودھ پتی چائے کے نمونے حاصل کیے جن میں مائیکرو فائبر پلاسٹک پائی گئی ہے۔‘
جناح یونیورسٹی برائے خواتین کی ایک محقق حنا معین کا کہنا ہے کہ ’ہم حیران رہ گئے کہ کراچی شہر سے حاصل کیے گئے دودھ پتی چائے کے تمام نمونوں میں مائیکرو پلاسٹک کے ذرات پائے گئے۔‘
انہوں نے بتایا کہ دودھ پتی کے 1 ملی لیٹر میں مائیکرو پلاسٹک کے 1 سے 5 ٹکڑے پائے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ دودھ پتی 100 سے 250 ملی لیٹر کی پیالیوں میں پی جاتی ہے لہذا دودھ پتی کی ہرپیالی کے ذریعے تقریبا 100 سے 1250 مائیکرو پلاسٹک کے ٹکڑے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں۔
حنا معین کا مزید کہنا تھا کہ کراچی شہر کے مختلف علاقوں سے حاصل شدہ نمونوں میں کوئی خاص فرق نہیں پایا گیا ہے۔ ’اس کی وجہ خام مال (چائے پتی، دودھ اور چینی) اور اسے پکانے کا طریقہ کار ایک جیسا ہے۔ اسی لیے مائیکرو پلاسٹک کی مقدار میں کوئی واضح فرق نہیں پایا گیا۔‘
محمد معظم خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ دودھ پتی چائے کے نمونوں میں مائیکرو پلاسٹک کی موجودگی تشویشناک ہے، کیونکہ مائیکرو پلاسٹک کے ہر ذرے کی ساخت بینادی پلاسٹک کی کیمیائی ترکیب اجزائی، استعمال اور ٹوٹ پھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔
’مگر ان ذرات میں ماحول کی کثیف مادوں کو اپنی سطح پر جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم سب کو مل کر ماحول میں پلاسٹک کے فضلے کو پھینکنے کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اور اپنے روزمرہ کے معمولات میں پلاسٹک کے استعمال کو کم سے کم کرنا ہوگا۔