پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران ان کی ایک اور غلط بیانی سامنے آ گئی ہے۔
بدھ کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سماعت کے دوران بینچ کی رکن جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ جس منسوخ شدہ پاسپورٹ پر فیصل واوڈا انحصار کر رہے ہیں وہ ایکسپائر ہوچکا تھا۔
جسٹس عائشہ ملک نے مزید کہا کہ ریٹرننگ افسر (آر او) کو جو پاسپورٹ 2018 میں دکھایا گیا تھا وہ 2015 میں ایکسپائر ہو چکا تھا۔
مزید پڑھیں
-
فیصل واوڈا نااہلی کیس، تحریری جواب جمع کروانے کی ہدایتNode ID: 547716
-
فیصل واوڈا نااہلی کیس: الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کر لیاNode ID: 629386
-
فیصل واوڈا کیس، نااہلی بنتی ہے مگر تاحیات نہیں: چیف جسٹسNode ID: 706836
خیال رہے کہ گزشتہ سال الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل واوڈا کو نااہل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہوئے امریکی شہریت چھوڑنے سے متعلق جھوٹا بیان حلفی جمع کروایا تھا۔
بدھ کو کیس کی سماعت شروع ہوئی تو فیصل واوڈا کے وکیل وسیم سجاد نے اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ریٹرننگ افسر نے فیصل واوڈا کا امریکی پاسپورٹ دیکھ کر تسلی کی ہے جس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ جس پاسپورٹ پر انحصار کر رہے ہیں وہ ایکسپائرڈ تھا۔
جسٹس عائشہ نے کہا کہ امریکہ میں ’نیا پاسپورٹ بنوائیں تو پرانے پر منسوخی کی مہر لگتی ہے۔ منسوخ شدہ پاسپورٹ شہریت چھوڑے جانے کا ثبوت کیسے ہو سکتا ہے؟‘
جسٹس عائشہ ملک کے ریمارکس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ تو بہت سنجیدہ ہوگیا ہے۔
