Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ارشد شریف کی تصاویر‘ میڈیا تک کیسے پہنچیں؟ پمز انتظامیہ ایکشن لے گی

پمز انتظامیہ کے مطابق بظاہر ٹی وی پر چلنے والی تصاویر پمز ہسپتال سے ہی میڈیا کو لیک ہوئی ہیں۔ (فائل فوٹو)
کینیا میں فائرنگ سے قتل ہونے والے سینئیر پاکستانی صحافی ارشد شریف کے پوسٹ مارٹم کی مبینہ تصاویر لیک ہونے پر اسلام آباد کے پمز ہسپتال نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے اور ٹی وی پر تصاویر چلنے پر پیمرا سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جمعے کو اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پمز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد مسعود نے بتایا کہ چند روز قبل ٹی وی پر ارشد شریف کے تشدد زدہ جسم کی تصاویر چلانے کے معاملے پر ہسپتال نے پیمرا کو خط لکھ کر ایکشن لینے کی درخواست کی ہے۔
چند دن قبل مقامی ٹی وی دنیا نیوز نے دعویٰ کیا تھا کہ مرحوم ارشد شریف کے کینیا میں قتل سے قبل ان پر بدترین تشدد کیا گیا تھا اور اس حوالے سے تصاویر بھی دکھائی گئی تھیں۔
پمز انتظامیہ کے مطابق بظاہر ٹی وی پر چلنے والی تصاویر پمز ہسپتال سے ہی میڈیا کو لیک ہوئی ہیں۔
ڈاکٹر خالد مسعود نے اس حوالے سے ایک دو رکنی کمیٹی بنائی ہے جو تحقیق کرے گی کہ یہ تصاویر کیسے میڈیا تک پہنچیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پمز انتظامیہ کمیٹی کی رپورٹ سامنے آنے پر ذمہ داران کے خلاف تادیبی کاروائی کرے گی۔
جمعرات کو جیو نیوز کے شو آج شاہ زیب خان زادہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مسعود نے بتایا تھا کہ ان کے پاس پوسٹ مارٹم کی جو تصاویر ہیں، لیک ہونے والی تصاویر ان سے ملتی جلتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پوسٹ مارٹم کرنے والی ٹیم کے سربراہ نے ارشد شریف کے جسم پر تشدد کے 12 نشانات کی نشاندہی کی ہے۔ ڈاکٹر خالد نے بتایا کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کی دائیں کلائی پر تشدد کے نشانات ملے اور ان کے ہاتھ کی چار انگلیوں کے ناخن نہیں تھے، ہوسکتا ہے کہ کینیا میں پوسٹ مارٹم کے دوران ناخن نکالے گئے ہوں۔

پمز انتظامیہ کے مطابق قانون کے تحت ابتدائی رپورٹ پولیس کے حوالے کر دی گئی ہے۔ (فائل فوٹو)

پمز کے ڈائریکٹر کے مطابق اس حوالے سے فارنزک ہو رہا ہے جس کی رپورٹ میں سامنے آئے گی تو پتا چل سکے گا کہ کتنا تشدد ہوا، ہوا بھی یا نہیں ہوا۔
ڈائریکٹر پمز ہسپتال کا کہنا تھا کہ ہمیں کینیا میں ہوئے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نہیں ملی۔ 
پمز کے ڈائریکٹر نے مزید بتایا تھا کہ قانون کے تحت ابتدائی رپورٹ پولیس کو دے دی ہے، ان کے اہلخانہ میں سے کسی نے تحریری درخواست نہیں دی ہے۔ تاہم اگر کوئی درخواست آئے گی تو رپورٹ دے دیں گے۔
اس سے قبل وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ یہ بیانیہ غلط ہے کہ ارشد شریف کا قتل غلط شناخت کی بنیاد پر ہوا بلکہ بظاہر یہ قتل ہے۔ ان کے مطابق کینیا میں تحقیقاتی ٹیم کو ایسا کچھ نہیں ملا ہے۔

شیئر: