Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنرل ساحر شمشاد مرزا، ’سرکاری فارم میں وارث کی جگہ اپنی رجمنٹ کا نام لکھ دیا‘

جنرل ساحر شمشاد مرزا کا تعلق ضلع چکوال کے ایک قصبے ملہال مغلاں سے ہے (فوٹو: توئٹر)
جنرل ساحر شمشاد مرزا کو پاکستان کی فوج کا چئیرمین جوائنٹس چیف آف سٹاف کمیٹی مقرر کیا گیا ہے۔ 
جنرل ساحر شمشاد مرزا کی شخصیت کے حوالے سے میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کہتے ہیں کہ وہ خالصتاً ’جینٹلمین‘ ہیں۔
’اگر میں ان کے سروس پروفائل کو دیکھتے ہوئے بات کروں تو وہ ٹاپ آف دی لائن ہیں۔ ایک سیزینڈ جینٹلمین آفیسر اور ڈے ٹو ڈے لائف میں انتہائی پروفیشنل ہیں۔‘  
ایک سینیئر ریٹائرڈ فوجی افسر، جن کے زیرِکمان جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کیریئر کا ابتدائی سفر طے کیا اور جو ان کو فوج میں داخلے کے پہلے دن سے جانتے ہیں، نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ اپنے ہم عصروں سے بہت زیادہ محنتی اور قابل ہیں۔  
’جب ساحر شمشاد مرزا ایک جونیئر آفیسر تھے، اس وقت بھی فوج کے سینیئر کمانڈر ان کی قابلیت سے اتنے متاثر تھے کہ وہ کہتے تھے کہ اگر ان کی شخصیت کے تین حصے ہوں تو ایک کو تربیت پر لگا دیں، ایک کو کمان پر اور ایک کے حوالے ملک کے خارجہ امور کر دیے جائیں تو یہ سب کچھ ٹھیک کر دیں گے۔‘
جنرل ساحر شمشاد مرزا کا تعلق ضلع چکوال کے ایک قصبے ملہال مغلاں سے ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے والد ان کے اوائل عمری میں ہی انتقال کر گئے تھے جس کے بعد انہوں نے سخت محنت سے اپنی زندگی خود بنائی۔   
ملہال مغلاں کے ایک مقامی صحافی فخر محمود مرزا جو جنرل ساحر شمشاد مرزا کے خاندانی عزیز ہیں، کے مطابق وہ ایک فوجی تاریخ کے حامل ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کے کئی افراد پاک فوج میں خدمات سر انجام دیتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں۔ جن میں سے ان کے ایک کزن کرنل عامر بیگ لاہور میں آئی ایس آئی کے دفتر پر دہشت گردوں کے حملے میں، ایک کزن میجر عمر بیگ کشمیر کے زلزلہ زدگان کی امدادی سرگرمیوں کے دوران ایک حادثے میں اور ایک اور کزن کیپٹین علی زلزلے کے دوران کشمیر میں پیشہ وارانہ امور کی انجام دہی کے دوران شہید ہوئے۔    
وہ ان کی شخصیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’ساحر شمشاد مرزا انتہائی ہنس مکھ، ملنسار، بردبار اور حلیم طبع ہیں۔ جب کبھی وہ گاؤں آئیں اور گلی میں کوئی ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بات کرے تو وہ وہاں بہت دیر تک کھڑے ہو کر ان سے باتیں کرتے رہیں گے۔‘    
ساحر شمشاد مرزا کے دو بیٹے ہیں، بڑا بیٹا ایک جونیئر فوجی افسر ہے جبکہ چھوٹا ابھی زیر تعلیم ہے۔ 
پی ایم اے کاکول کے 76 لانگ کورس سے پاس آوٹ ہو کر آٹھ سندھ رجمنٹ سے فوجی کیریئر کا آغاز کرنے والے ساحر شمشاد مرزا چیئرمین جوائنٹس چیفس آف سٹاف کمیٹی بننے سے پہلے پاکستان آرمی کی سب سے متحرک ٹین کور کے کمانڈر تھے۔
انہوں نے پاکستان فوج کے چیف آف جنرل سٹاف، ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز اور ایڈجوٹینٹ جنرل کے طور پر بھی خدمات انجام دی ہیں۔   
بطور ڈی جی ملٹری آپریشنز اور چیف آف جنرل سٹاف کے جنرل ساحر شمشاد مرزا نے ملکی سطح پر اہم ذمہ داریاں ادا کیں اور عملی طور پر فوج کے سیکنڈ ان کمانڈ کا کردار ادا کرتے رہے۔ انہوں نے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کامیاب جنگ، افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے طالبان امریکہ مذاکرات اور چین اور امریکہ کے ساتھ تزویراتی معاملات پر بات چیت میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔   

’وہ کم بات کریں گے اور فوج کو پیشہ ورانہ امور میں آگے لے کر جائیں گے۔‘

سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے ملٹری سیکرٹری اور جنرل مشرف دور کے پاکستانی فوج کے اہم کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم ساحر شمشماد مرزا کے خاندان کو قریب سے جانتے ہیں۔    
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’وہ ایک خالص پیشہ ور سپاہی ہیں۔ مغربی سرحد، افغان امور اور کشمیر پر عبور رکھتے ہیں۔ غیر سیاسی ہیں۔ وہ فوج اور اس کے جوانوں کی جدید جنگی مہارت میں رہنمائی کریں گے۔‘
 ساحر شمشاد مرزا کی کمان کرنے والے سینیئر فوجی افسر کے مطابق ان کی شخصیت کا سب سے مضبوط پہلو ان کی سخت محنت ہے۔ اگر ایک عام فوجی افسر دن میں 10 گھنٹے کام کرتا ہے تو یہ 14 گھنٹے کرتے ہیں اور یہ اس وقت سے ان کی عادت ہے جب وہ سیکنڈ لیفٹیننٹ تھے۔ وہ اس وقت بھی کام کو اتنا ہی سنجیدہ لیتے تھے جتنا اب لیتے ہیں۔  
ان کے مطابق ساحر شمشاد مرزا نے اپنے منفرد خاندانی پس منظر کی وجہ سے پہلے دن سے ہی فوج کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔  
’ان کے والدین کی پہلے ہی وفات ہو گئی تھی۔ بھائی بہن کوئی نہیں تھا۔ لہٰذا انہوں نے اپنا سب کچھ فوج کو بنا لیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب شروع میں کچھ سرکاری فارم پر کرتے وقت ایک جگہ انہیں اپنے وارث کا نام لکھنا تھا تو انہوں نے وہاں آٹھ سندھ رجمنٹ لکھ دیا تھا۔‘
ان کی شخصیت کے متعلق ان کے سابق کمانڈر نے بتایا کہ ساحر شمشاد دوسروں کو بے پناہ عزت دیتے ہیں اور انتہائی منکسرالمزاج ہیں۔ یہاں تک کہ ان کو نہ جاننے والے سمجھتے ہیں کہ وہ شاید انکساری کا مظاہرہ کر کے ان سے مذاق کر رہے ہیں۔   
’پیشہ ورانہ حوالے سے وہ فوج کی آپریشنل تیاریوں کو ہمہ وقت یقینی بنائیں گے۔ ان کی کوئی سیاسی خواہش نہیں ہے۔ نہ ہی ان کے کوئی ایسے دوست ہیں جن کو نوازنے کے لیے وہ کوئی غلط قدم اٹھائیں گے۔‘   
’وہ کم بات کریں گے اور فوج کو پیشہ ورانہ امور میں آگے لے کر جائیں گے۔‘  

’وہ بددیانت اورغلط کام کرنے والوں کو برداشت نہیں کرتے‘

ساحر شمشاد مرزا کے ایک ماتحت جو انہیں اس وقت سے جانتے ہیں جب وہ میجر تھے کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان کو کبھی غصے میں نہیں دیکھا۔  
تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ بددیانت اورغلط کام کرنے والوں کو برداشت نہیں کرتے اور انہیں قانون کے تحت ہر ممکن سزا دیتے ہیں۔  
ان کے مطابق اگر جنرل ساحر سے کسی کو کوئی شکایت ہو سکتی ہے تو وہ ان کے گھر والوں کو ہو سکتی ہے کہ وہ ان کا وقت بھی فوج کو دیتے ہیں اور دن کا بیشتر وقت دفتر میں یا پیشہ وارانہ امور نمٹاتے ہوئے صرف کرتے ہیں۔  
ساحر شمشاد مرزا کے ایک اور قریبی عزیز فضل حق مرزا جو 1970 اور 1977 میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رکن رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ ان کا فوج میں اعلیٰ مقام خالصتاً ان کی ذاتی محنت اور جدوجہد کا نتیجہ ہے۔  
’ ساحر کے جوانی میں قدم رکھتے ہی ان کے دونوں والدین چند ماہ کے وقفے سے انتقال کر گئے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے سخت محنت کی اور والدین کے انتقال کے چند سال بعد فوج میں کمیشن حاصل کر لیا۔‘

شیئر: