’سموسے کی توہین چھوڑ کر کوئی اور کام کیوں نہیں کرتے؟‘
پیر 5 دسمبر 2022 16:34
سوشل ڈیسک -اردو نیوز
سموسہ کو خلاف صحت کہنے والے وی لاگر کے مطابق انہیں مخالفانہ نعروں کا بھی سامنا کرنا پڑا (فوٹو: ٹوئٹر)
کھانے پینے کی کچھ اشیا ایسی ہوتی ہیں جو کسی جگہ یا موقع کی تخصیص کے بغیر جہاں پہنچیں، فورا ہی مقبول ہو جاتی ہیں۔ سموسے کو بھی اسی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے تاہم پاکستان میں یہ مزاح ہی مزاح میں اب ’سموسہ تحریک‘ کا عنوان بن گیا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ایک ڈاکٹر اسے ’سموسہ سے بچاؤ‘ کے مقصد کے تحت چلا رہے ہیں جب کہ سموسے کو پسند کرنے والے اسے ’سموسہ بچاؤ تحریک‘ کے رنگ لیے آگے بڑھا رہے ہیں۔
پاکستانی ٹائم لائنز پر ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے ’سموسے میں 400 کیلوریز، اسے پکانے والے تیل کے بار بار استعمال کی وجہ سے خلاف صحت ہونے‘ اور دیگر پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے لوگوں کو ’صحت بچانے‘ کے مشورے دینے والے ڈاکٹر عفان قیصر اب بھی اپنے موقف پر قائم ہیں، لیکن دوسری جانب ’محبان سموسہ‘ ہیں کہ نہ صرف ان کی باتوں کو خاطر میں نہیں لا رہے، الٹا انہیں ’سموسے کے خلاف سازش‘ کا ملزم ٹھہرا رہے ہیں۔
ماضی میں سموسے سے صحت کو ہونے والے نقصانات بتانے والے ڈاکٹر محمد عفان قیصر نے اپنے تازہ ویڈیو پیغام میں سموسہ ہاتھ میں تھامے ہوئے جہاں اپنی مہم کو درپیش مشکلات کا ذکر کیا وہیں اپنی بات پر قائم رہنے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔
اس کے جواب میں ’ذرا سوچیے‘ کہہ کر دعوت فکر دینے والے ماجد خان نے جہاں ’پکوڑوں کے ساتھ مل کر سموسوں کے خلاف سازش‘ والی اپنی ’بات سچ ہو جانے‘ کا دعوی کیا وہیں لکھا کہ ’خود ہی ملاحظہ فرمائیں، بتا دیا گیا کہ سموسوں کی جگہ پکوڑے کھائیں۔‘
مقدس فاروق اعوان نے ویڈیو میں دکھائے گئے سموسے کے انجام میں دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا کہ ’اس کا کیا بنا‘ تو انہیں جواب ملا کہ وہ ’آپ کو پارسل کر دیا گیا ہے۔‘
سموسہ سے باز رکھنے کی کاوش کرنے والے عفان قیصر کے جواب میں نصیر شاہ نے لکھا کہ ’رمضان آنے دیں، اس بار آپ پر بہت نگاہیں ہوں گی۔ سموسہ پرست آپ کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کی کوشش کریں گے۔‘
جذبات کی رو میں بہہ کر نصیر شاہ یہ تک کہہ گئے کہ ’پاکستان کے اک اک شہر گاؤں، قصبہ، گلی، محلہ میں لالو رہے نہ رہے سموسہ میں آلو اور اُس کے چاہنے والے رہیں گے۔‘
انجینیئر عینی علی نے ’گھر پر دیسی گھی اور ایئر فرائیر‘ میں تیار سموسوں کی تصویر شیئر کرتے ہوئے پوچھا کہ ’اب بتائیں کیا اعتراض ہے؟‘۔ انہیں اس سوال کا جواب تو نہیں ملا لیکن اور صارف نے محفوظ سمجھی جانے والی ایئر فرائیر ٹیکنالوجی پر یہ سوال اٹھا دیا کہ کچھ محقیقین اسے بھی اب صحت کے لیے مفید نہیں مانتے اور امکان ہے کہ مستقبل قریب میں اسے باقاعدہ طور پر نقصان دہ تسلیم کر لیا جائے۔
سمیہ راشد نے ’قصور سموسے کا نہیں بنانے والوں کا ہے‘ موقف اپنایا تو اصلاح احوال کا مطالبہ بھی کیا۔
مخالفین سموسمہ اور محبان سموسہ کے درمیان کشیدگی کے بعد ابہام کا شکار ہونے والی صورتحال کو واضح کرنے اور نتیجہ خیز بنانے کی کوشش ہوئی تو عبدالحنان نے لکھا کہ ’ہمیں بائیکاٹ کرنے کے بجائے سموسہ کو صحت کے لیے بہتر بنانا چاہیے۔‘
پاکستانی ٹائم لائنز پر سموسے اور اس سے متعلق گفتگو طبی فوائد ونقصانات اور مزاح تک ہی نہیں رہی بلکہ یہ ’سموسہ‘ اور ’سموسہ کریٹیکس‘ کے دو ٹرینڈز کی بنیاد بھی ڈال گئی ہے۔
پاکستان کے روایتی سنیکس میں شامل سموسہ گھروں میں مہمان نوازی اور دوستوں کی محفل کو ہی چار چاند لگانے کے کام نہیں آتا بلکہ اسے بطور تحفہ پیش کرنا خانگی اور سماجی تعلقات میں بہتری کا ذریعہ بھی مانا جاتا ہے۔
تعلیمی اداروں اور دفاتر میں ہم جماعتوں اور کولیگز کے درمیان ’سموسے منگوا لیں‘ بعض اوقات بطور ’سزا‘ بھی برتا جاتا ہے، یہ الگ بات کہ اس سزا کو پانے والا نہ جرم چھوڑتا ہے نہ مجرم ہونے کا اقرار کرتا ہے۔