پنجاب کی سیاسی صورت حال، مسلم لیگ ن کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟
پنجاب کی سیاسی صورت حال، مسلم لیگ ن کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟
منگل 6 دسمبر 2022 5:44
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
اتحادی جماعتوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر ان ہاؤس تبدیلی لائیں گی (فائل فوٹو: پنجاب اسمبلی)
پاکستان میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی اور تحریک انصاف کی طرف سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں فوری تحلیل نہ کرنے کے بیان کے بعد سیاسی طوفان قدرے تھما ضرور ہے۔
تاہم ابھی بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بے یقینی کی فضا ختم ہو گئی ہے۔ اتحادی جماعتوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ پنجاب میں ایک مرتبہ پھر ان ہاؤس تبدیلی لائیں گی۔
آصف علی زرداری اس بات کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کی پنجاب اسمبلی میں ’گرفت‘ ہے، یہ ن لیگ کے لیے پہلے بھی ایک بڑا مسئلہ تھا اور اب بھی ہے۔
ایک طرف 18 لیگی ایم پی ایز کی رکنیت معطل ہے وہ اسمبلی میں داخل نہیں ہو سکتے تو دوسری طرف پنجاب اسمبلی کا طویل اجلاس ختم ہونے میں نہیں آرہا جس کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد لانے اور گورنر راج لگانے کے آپشنز فی الحال کم ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف لاہور میں تین روز گزارنے کے بعد واپس اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ ان تین دنوں میں انہوں نے اپنی پارٹی کے اراکین سے پنجاب کے معاملات پر طویل مشاورت کی ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ بات حتمی لائحہ عمل کی طرف بڑھ رہی ہے۔
پنجاب میں اقتدار لینے کے لیے مسلم لیگ ن کیا حکمت عملی بنانے جا رہی ہے اس پر بات کرتے ہوئے لیگی رہنما رانا مشہود کہتے ہیں کہ ’پنجاب میں ہمارے پاس کافی آپشنز ہیں۔‘
’تاہم آپشنز کا ٹائم فریم اور اس پر کی جانے والی محنت مختلف ہے۔ ایسے میں جس بات پر سب کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے بجائے انہیں گورنر، اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں۔‘
’اس طرح سارا بوجھ وزیراعلٰی پرویز الٰہی پر ہو گا کہ وہ اپنے 186 ارکان پورے کریں۔‘
مسلم لیگ ن گورنر کے ذریعے پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتی ہے (فائل فوٹو: سکرین گریب)
خیال رہے کہ اس سے پہلے چوہدری پرویز الٰہی نے وزرات اعلٰی کے انتخاب میں 186 ووٹ ہی حاصل کیے تھے، جبکہ ان کے مدمقابل حمزہ شہباز کو 180 ارکان کی حمایت حاصل تھی۔
ن لیگ کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف کے کئی ارکان اس وقت ان سے رابطے میں ہیں اور وہ پرویز الٰہی کو وزیراعلٰی نہیں دیکھنا چاہتے۔
اس سے پہلے جب وزیراعلٰی کا انتخاب ہوا تھا تو تحریک انصاف اور ن لیگ نے اپنے اپنے ارکان کو لاہور کے ہوٹلوں میں ٹھہرایا تھا۔
آخری وقت تک دونوں جماعتیں یہ دعویٰ کر رہی تھیں کہ مخالف کے ارکان ان کے ساتھ ہیں، تاہم ایوان کے اندر ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔
ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید چیمہ سمجھتی ہیں کہ اب یہ سیاسی چالیں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔
پنجاب میں سیاسی صف بندی کے تناظر میں آصف زرداری نے پیر کو چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کی (فائل فوٹو: سکرین گریب)
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ابھی تو تحریک انصاف نے یہ فیصلہ بھی نہیں کیا کہ یہ اسمبلی قائم بھی رہے گی یا نہیں جس کے لیے 13 جماعتوں کا اتحاد پاپڑ بیل رہا ہے۔ اب سیاست ویسی ہی ہو گی جیسی عمران خان چاہیں گے۔‘
پنجاب میں ایک مرتبہ پھر سیاسی صف بندی ہو رہی ہے۔ اسلام آباد میں آصف علی زرداری نے پیر کے روز چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ’یہ ملاقات خالصتاً پنجاب کے تناظر میں ہی ہوئی ہے کیونکہ چوہدری شجاعت حسین کی جماعت ق لیگ کے پاس پنجاب اسمبلی میں 10 نشستیں ہیں جن کے بل بوتے پر پرویز الٰہی کی حکومت قائم ہے۔