اس فلم میں حمد فرحان نے ایک ایسے بچے کا کردار کیا ہے جو آٹزم کے عارضے میں مبتلا ہے۔
العربیہ نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے حمد فرحان کی والدہ نے بتایا کہ ’حمد کے اداکاری کے سفر کا آغاز اشتہارات میں کام سے ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے یومِ وطنی سے متعلق ایک کھیل میں کام کیا۔ اور پھر حمد فرحان کو ان تجربات کا استعمال فلم میں کرنے کا موقع مل گیا۔‘
حمد فرحان کی والدہ نے بتایا کہ ’ہم خاندان والوں نے اسے فلمیں دیکھنے کی ترغیب دی اور اداکاری کے اہم پہلوؤں کی جانب توجہ دینے کو کہا۔‘
انہوں نے اس حوالے سے فلم کے ڈائریکٹر اور ان کی ٹیم کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ حمد نے اپنی قوت ارادی اور تخلیقی صلاحیت کا بھرپور استعمال کیا۔
’حمد فرحان فلم میں کام کرنے کے بعد وقت کا زیادہ پابند ہو گیا ہے اور اب اس کے بہت سے دوست اور مداح بن گئے ہیں جو اس کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔‘
حمد فرحان کی والدہ کے بقول فلم میں کام کے دوران اسے کئی طرح کے چیلنجز درپیش رہے کیونکہ اس فلم کی شوٹنگ لگ بھگ ڈیڑھ برس تک جاری رہی۔ اس دوران اداکاروں کو مملکت کے جنوبی اور وسطی علاقوں کا سفر کرنا پڑا۔ اور سرد موسم بھی ایک مسئلہ تھا۔
’فلم کی شوٹنگ 10 سے زائد مقامات میں ہوئی جن میں سعودی عرب کے جنوب میں نوتعمیر شدہ ایک گاؤں اور نماص میں واقع ایک محل بھی شامل ہے جو آٹھ سال سے بند تھا۔‘
اس موقعے پر حمد فرحان کی والدہ نے فلم کے ڈائریکٹر خالد فہد کا شکریہ ادا کیا انہوں نے بچے کو نایف خلف، أسیل عمران جیسے نمایاں فلمی ستاروں کے ساتھ کام کا موقع دیا۔
فلم ’طریق الوادی‘ ایک ایسے بچے کے والد کی کہانی ہے جو آٹزم کے عارضے میں مبتلاہے۔ والد اپنے بچے کو گاؤں سے باہر ایک ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے چھوڑتا ہے۔ فلم میں ان مشکلات اور چیلنجز کی عکاسی کی گئی ہے جو اس سفر میں باپ بیٹے کو پیش آئیں۔‘