طالبان خواتین کے خلاف پالیسیاں واپس لیں، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو نشانہ بنانے والی پالیسیوں کو واپس لیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے منگل کو افغانستان میں ’انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں‘ پر تشویش کا اظہار کیا۔
15 رکنی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ خواتین کی تعلیم پر بڑھتی ہوئی پابندیوں سے ’سخت پریشان‘ ہیں۔
انہوں نے طالبان پر زور دیا ہے کہ ’سکول دوبارہ کھولیں اور ان پالیسیوں کو فوراً تبدیل کریں جو انسانی حقوق کے خلاف ہیں۔‘
سلامتی کونسل نے این جی اوز کے لیے کام کرنے والی خواتین پر پابندی کی بھی مذمت کی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ پابندیاں طالبان کی جانب سے افغان عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کی توقعات سے بھی متصادم ہیں۔‘
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خواتین اور لڑکیوں پر حالیہ پابندیوں کو ’غیر منصفانہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں منسوخ کیا جانا چاہیے۔
اسے سے قبل منگل کو اقوام متحدہ کے حقوق کے سربراہ نے خبردار کیا تھا کہ ایسی پالیسیوں کے ’خوفناک‘ نتائج سامنے آئیں گے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ترک نے ایک بیان میں کہا کہ ’خواتین اور لڑکیوں پر لگائی جانے والی یہ ناقابل تصور پابندیاں نہ صرف تمام افغانوں کے مصائب میں اضافہ کریں گی بلکہ مجھے خدشہ ہے کہ یہ افغانستان کی سرحدوں سے باہر بھی خطرے کا باعث بنیں گی۔‘
انہوں نے کہا کہ پالیسیوں سے افغان معاشرے کو عدم استحکام کا خطرہ ہے۔
وولکر ترک نے تنبیہہ کی کہ خواتین کے این جی اوز میں کام کرنے پر پابندی عائد کرنے سے خاندانوں کی اہم آمدنی چھِن جائے گی اور ضروری خدمات کی فراہمی کے لیے تنظیموں کی صلاحیت کو نقصان پہنچے گا۔
کئی غیر ملکی امدادی اداروں نے اتوار کو اعلان کیا تھا کہ وہ افغانستان میں اپنی کارروائیاں معطل کر رہے ہیں۔