Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترکی، شام اور روس کے وزرائے دفاع کی 2011 کے بعد پہلی ملاقات

روس، ترکیہ اور شام کے وزرائے دفاع نے ماسکو میں ملاقات کی ہے جو شام میں جنگ کے آغاز کے بعد اس قسم کی پہلی ملاقات ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 2011 میں جنگ شروع ہونے کے بعد بدھ کو ترکیہ اور شام کے وزرائے دفاع کے درمیان بھی یہ پہلی ملاقات بھی تھی۔
ماسکو شام اپنے مخالفین کے خلاف دمشق حکومت کی حمایت کر رہا ہے جبکہ انقرہ باغیوں کی حمایت کر رہا ہے۔
یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ترک صدر رجب طیب اردوغان نے شمالی شام میں کرد گروپوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کرنے کی دھمکی دی ہے۔
روسی وزارت دفاع نے بتایا ہے کہ روس کے وزیر دفاع سرگئی شوئیگو اور ان کے ترکیہ اور شامی ہم منصبوں حلوسی آکار اور علی محمود عباس نے ’شام کے بحران، پناہ گزینوں کے مسئلے اور شام میں انتہا پسند گروہوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کے حل کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔‘
وزارت دفاع کے مطابق یہ ملاقات ’تعمیری‘ رہی جس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ شام اور خطے میں ’صورتحال کو مزید مستحکم کرنے کے مفاد میں اسے جاری رکھا جائے۔‘
ترکیہ کی وزارت دفاع نے بھی ایسا ہی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملاقات ’تعمیری ماحول‘ میں ہوئی۔
وزارت نے کہا کہ ’ملاقات میں شام کے بحران، پناہ گزینوں کے مسئلے اور شام میں تمام دہشت گرد تنظیموں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔‘
شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی صنعا نے وزارت دفاع کے حوالے سے بتایا کہ شام کے جاسوسی کے ادارے کے سربراہ بھی موجود تھے اور ملاقات ’مثبت‘ رہی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام کے وزیر دفاع اور شامی انٹیلی جنس سروس کے سربراہ نے ماسکو میں اپنے ترک ہم منصبوں سے ملاقات کی جس میں روسی حکام نے بھی شرکت کی۔
سنیچر کو حلوسی آکار نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ترکیہ شامی کرد وائی پی جی ملیشیا کے خلاف ممکنہ کارروائی میں شام کی فضائی حدود استعمال کرنے کے بارے میں روس کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم شام میں فضائی حدود کھولنے کے بارے میں روس کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔‘
ترکیہ اور شام کے وزرائے خارجہ نے 2021 میں علاقائی سربراہی اجلاس کے موقع پر ایک مختصر غیر رسمی ملاقات کی تھی اور انقرہ نے دونوں ممالک کی انٹیلی جنس سروسز کے درمیان رابطوں کا اعتراف کیا تھا۔
11 سالہ تنازع کے دوران دمشق کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے بعد نومبر میں رجب طیب اردوغان نے کہا تھا کہ شام کے رہنما بشار الاسد سے ملاقات کا امکان ہے۔
دسمبر کے وسط میں انہوں نے اشارہ دیا تھا کہ وہ دونوں ممالک کے وزرائے دفاع اور خارجہ کی ملاقات کے بعد بشار الاسد سے ملاقات کر سکتے ہیں۔

شیئر: