پاکستان مسلم لیگ ق پنجاب کے صدر اور قائم مقام وزیراعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے اپنی جماعت کو پاکستان تحریک انصاف میں ضم کرنے کے حوالے سے حتمی مشاورت شروع کر دی ہے۔
اس حوالے سے پارٹی کے ان تمام منتخب ارکان سے مشاورت کی جا رہی ہے جو چوہدری شجاعت حسین کے بجائے چوہدری پرویز الٰہی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ مشاورت کے بعد حتمی اعلان بھی جلد متوقع ہے۔
مزید پڑھیں
چوہدری پرویز الٰہی کے اس ممکنہ فیصلے کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے سخت ردعمل دیتے ہوئے ان کی پارٹی کی بنیادی رکنیت معطل کردی ہے اورانہیں شوکاز نوٹس جاری کر دیا ہے۔
شوکاز نوٹس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’صوبائی صدر جماعت کو کسی دوسری جماعت میں ضم کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتا۔‘
چوہدری پرویز الٰہی کے فیصلے کے بعد جہاں چوہدری برادران کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بہت سی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں، وہیں یہ سوال بھی جنم لے رہا ہے کہ مسلم لیگ ق کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا مسلم لیگ ق دوبارہ سے کنگز پارٹی یا کنگ میکر پارٹی بن سکے گی؟
مسلم لیگ ق کا مستقبل کیا ہو گا؟
اس معاملے پر مسلم لیگ ق کے سیکریٹری اطلاعات غلام مصطفیٰ ملک نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’مسلم لیگ ق اپنا علیحدہ تشخص برقرار رکھے گی، بطور جماعت کسی دوسری جماعت میں ضم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ کسی صوبائی تنظیم کو یہ حق دیا جا سکتا ہے، تاہم انفرادی حیثیت میں جو جہاں جانا چاہے اس کا حق ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’مسلم لیگ ق حکمراں جماعت رہ چکی ہے اور ملکی سیاست میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ چوہدری صاحبان کے خاندانی تنازعے میں جماعت کے وجود پر سوالیہ نشان پیدا کرنے والے، مخلص اور نظریاتی مسلم لیگی کارکنوں کی دل آزادی کر رہے ہیں۔‘
’تحریک انصاف اور مسلم لیگی کارکنوں کا سیاسی مزاج اور نظریہ مختلف ہے۔ دونوں جماعتوں میں اتحاد کے باوجود کبھی ہم آہنگی نہیں رہی۔ مسلم لیگی کارکن کبھی بھی تحریک انصاف میں ضم ہونے کے فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے۔‘
اس سوال پر کہ کیا مسلم لیگ ق مستقبل کی سیاست میں اپنا کردار ادا کر سکے گی؟ غلام مصطفیٰ ملک کا کہنا تھا کہ ’ملکی سیاست میں چوہدری شجاعت حسین کا کردار کسی شخصیت اور جماعت کی مقبولیت کا محتاج نہیں۔ انہوں نے ہمیشہ قومی معاملات پر کلیدی کردار ادا کیا۔ آئندہ بھی قومی سیاست اور قومی معاملات میں ق لیگ اپنے پورے قد کے ساتھ کھڑی رہے گی اور عام انتخابات میں بھی حصہ لے گی اور اپنے امیدوار بھی کھڑے گی۔‘
کیا چوہدری شجاعت کی مسلم لیگ ق مسلم لیگ ن میں ضم ہو جائے گی؟ اس حوالے سے ترجمان مسلم لیگ ق نے کہا اس معاملے پر نہ تو غور کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی امکان ہے یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ابھی قبل از وقت ہے۔
کیا مسلم لیگ ق دوبارہ کنگز پارٹی بن سکے گی؟
مسلم لیگ ق اپنے قیام کے بعد سے اب تک اسٹیبلشمنٹ کی حامی جماعت سمجھی جاتی رہی ہے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے ارکان اسٹیبلشمنٹ کے ووٹ بینک سے ہی ایوانوں میں پہنچتے ہیں۔
اپنے اس موقف اور فوج کے قریب ہونے پر ق لیگ اور چوہدری برادران کو کبھی کوئی پچھتاوا بھی نہیں رہا بلکہ وہ اس پر فخر کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے انھیں کنگز پارٹی کہا جاتا ہے۔
اس حوالے سے سینیئر صحافی رانا غلام قادر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ق لیگ میں تقسیم کے بعد سے ممکن نہیں رہا کہ یہ کنگز پارٹی بن سکے۔ چوہدری شجاعت اپنی پارٹی کا وجود برقرار رکھتے ہوئے کوشش کریں گے کہ ن لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے اپنے خاندان کے لیے کچھ سیٹیں نکالنے میں کامیاب ہو جائیں۔‘

ان کے مطابق ’دوسری جانب چوہدری پرویز الٰہی کے پاس بھی تحریک انصاف میں شمولیت کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا تھا کیونکہ چوہدری شجاعت ان کو ٹکٹ بھی نہ دیتے اور نہ ہی ان کے لیے ن لیگ میں کوئی قبولیت ہے کہ وہ ان کے لیے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہامی بھرتے۔‘
رانا غلام قادر کے مطابق ’پرویز الٰہی اپنی موجودہ حیثیت میں خود سے الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اور اگر کچھ سیٹیں جیت بھی جائیں تو کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ تحریک انصاف ان کو حکومت میں اتحادی بنائے گی، کیونکہ اب تو مشکل حالات کی وجہ سے 10 سیٹوں کے ساتھ انہیں وزارت اعلٰی دے دی گئی، نئے انتخابات کے بعد ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے پرویز الٰہی کی کوشش ہے کہ وہ تحریک انصاف میں گھس کر ایسی پوزیشن حاصل کر لیں کہ مونس الٰہی وزارت اعلٰی کے امیدوار بنائے جا سکیں۔‘
پارٹی کا انضمام، قانون کیا کہتا ہے؟
اگر چوہدری پرویز الٰہی پاکستان مسلم لیگ ق کے تمام ارکان کو ساتھ لے کر پاکستان تحریک انصاف میں پارٹی کو ضم کر لیتے ہیں تو بھی تکنیکی اعتبار سے مسلم لیگ ق ضم نہیں ہو گی۔ الیکشن کمیشن حکام کے مطابق ’پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے تحت مسلم لیگ ق کی الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن چوہدری شجاعت حسین کے نام پر ہے۔ جب تک چوہدری شجاعت حسین پارٹی صدر ہیں مسلم لیگ ق بطور پارٹی موجود رہے گی۔ ان کی جماعت کی جنرل کونسل اگر کسی اور کو صدر منتخب کرے گی تو پارٹی اس کے نام پر منتقل ہو گی۔‘
حکام کے مطابق ’اگر پارٹی صدر کسی پارٹی رہنما کی رکنیت ختم یا معطل کر دے تو وہ رہنما اس وقت تک پارٹی کا دوبارہ رکن یا عہدیدار نہیں بن سکتا جب تک پارٹی صدر یا مرکزی مجلس عاملہ اس کی رکنیت بحال نہیں کرتے۔‘
اس لحاظ سے چوہدری پرویز الٰہی کی اس وقت پارٹی رکنیت بھی معطل ہے اس لیے ان کی جانب سے مسلم لیگ ق سے متعلق کوئی بھی فیصلہ قانونی طور پر کوئی معنی نہیں رکھتا۔

مسلم لیگ ق کی تاریخ
سنہ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضے کے تین سال بعد عام انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا تو اس سے قبل انہوں نے مسلم لیگ ن کے ارکان کو توڑ کر ایک نئی جماعت مسلم لیگ قائداعظم کے نام سے قائم کی۔ جس کا سربراہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر کے والد میاں اظہر کو بنایا گیا۔
سنہ 2002 کے انتخابات میں میاں اظہر کو جماعت اسلامی کے حافظ سلمان بٹ کے ہاتھوں شکست ہوئی تو انہوں نے پارٹی صدارت سے استعفیٰ دے دیا جس کے بعد چوہدری شجاعت حسین کو پارٹی سربراہ بنا دیا گیا۔
ایک موقع پر سلیم سیف اللہ خان نے پارٹی سربراہ بننا چاہا لیکن چوہدری برادران نے انہیں پارٹی سے الگ کر دیا، جس کے بعد انہوں نے ایک الگ جماعت بنائی لیکن وہ اس کو قائم نہ رکھ سکے۔
مسلم لیگ ق نے 2002 کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کے منحرف ارکان پیٹریاٹ گروپ کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ میر ظفر اللہ جمالی، چوہدری شجاعت حسین اور شوکت عزیز 2007 تک وزرائے اعظم بنے۔
سنہ 2008 کے عام انتخابات میں ق لیگ کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہ قومی اسمبلی میں صرف چند نشستیں ہی حاصل کر سکی۔ چوہدری پرویز الٰہی قائد حزب اختلاف بنے لیکن مسلم لیگ ن کے پیپلز پارٹی سے اتحاد ختم ہونے کے بعد وہ اس سے بھی محروم کر دیے گئے۔ تاہم بعدازاں وہ یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ڈپٹی وزیراعظم اور سینیئر وزیر بن گئے۔
سنہ 2013 کے عام انتخابات میں بھی مسلم لیگ ق قومی اسمبلی میں صرف دو نشستیں ہی حاصل کر سکی تھی۔
سنہ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کے باعث مسلم لیگ ق قومی اسمبلی میں پانچ جبکہ پنجاب اسمبلی میں 10 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
