میانوالی کا تھانہ مکڑوال: پولیس نے دہشت گردوں کا حملہ کیسے ناکام بنایا؟
میانوالی کا تھانہ مکڑوال: پولیس نے دہشت گردوں کا حملہ کیسے ناکام بنایا؟
بدھ 1 فروری 2023 14:58
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
آئی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور بدھ کو تھانہ مکڑوال پہنچے اور ان تمام اہلکاورں سے ملاقات کی ہے جنہوں نے اس حملے کو ناکام بنایا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
میاںوالی کے تھانہ مکڑوال میں منگل کی رات بظاہر معمول کے حالات تھے۔ شام کے بعد تھانے کا مرکزی گیٹ بند کر دیا گیا۔ چھت پر اور اردگر بنائے گئے بنکرز پر تازہ دم پولیس اہلکاروں نے اپنی ڈیوٹیاں سنبھال لی تھیں۔
رات کے کھانے کے بعد چائے کا دور ختم ہی ہوا تھا کہ ساڑھے نو بجے اچانک گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی اور یہ گولیاں تھانے کی چھت پر واقع بنکر کی دیوار میں پیوست ہوگئیں۔
ڈیوٹی پر موجود عملے کو دو سیکنڈ سے بھی کم وقت یہ سمجھنے میں لگا کہ وہ حملے کی زد میں ہیں۔
حملہ آور تھانے کے تین اطراف پر موجود تھے اور پہلے گولیوں کے برسٹ کے ساتھ ہی ایک دستی بم کا دھماکہ بھی ہو چکا تھا۔
بنکرز میں موجود پولیس اہلکاروں نے پوزیشنز سنبھال لیں۔
اس وقت تھانہ مکڑوال میں درجنوں پولیس اہلکار موجود تھے۔ ایس ایچ او ملک فیاض احمد گولیوں کی آواز میں ہی کمرے سے نکلے اور تمام اہلکاروں کو ہلہ شیری دیتے ہوئے خود بھی پوزیشن سنبھال لی۔
ملک فیاض کے مطابق ’ہم ذہنی طور پر تیار تھے کہ ایسا کوئی بھی واقعہ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ چند مہینے پہلے بھی ہم نے ایک کوشش ناکام بنائی وہ ہماری ایک چوکی پر حملہ تھا اس میں بھی ہم نے دشمن کو پسپا کیا تھا جس کے بعد میں نے تھانے کی سکیورٹی اور رات کی ڈیوٹی پر خاصی توجہ رکھی تھی۔ اور اس کا ہمیں فائدہ ہوا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’فائرنگ تین اطرف سے ہو رہی تھی اور بیچ میں دستی بم بھی چل رہے تھے۔ ہمارے پاس بھی بھرپور اسلحہ تھا۔ ہماری جوابی فائرنگ کے ساتھ ہی میں نے وائرلیس پر حملے کی اطلاع ضلعی پولیس ہیڈکوارٹرز کو کر دی۔ میرے ذہن میں تھا کہ کمک پہنچتے ہوئے بیس سے پچیس منٹ لگ سکتے ہیں۔ اور اس وقت تک ہمیں ان دہشت گردوں کو ہرصورت روکنا ہے۔‘
پنجاب کے ضلع میانوالی کا تھانہ مکڑوال پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے بارڈ پر واقع ہے۔ یہ دریائی علاقہ اور دریائے سندھ کے کچے کے علاقے کے باعث یہ جرائم پیشہ افراد کا گڑھ بھی ہے۔ جس کے لیے اس علاقے میں اضافی چوکیاں بنائی گئی ہیں۔
فائرنگ شروع ہوئے دومنٹ ہوچکے تھے۔ ایس ایچ او ملک فیاض اگلے 20 منٹ کی پلاننگ مصروف تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہمارا مقابلہ جرائم پیشہ افراد سے رہتا ہے لیکن فائرنگ کے پہلے برسٹ سے ہی مجھے یقین ہوگیا تھا کہ دہشت گرد حملہ ہے۔ وائرلیس کے بعد ضلعی ہیڈکوارٹر متحرک ہو چکا تھا۔ اور کچے کی تمام چوکیوں کے اہلکاروں کو بھی تھانے کی طرف پہنچنے کی ہدائت کر دی گئی تھی۔‘
تھانے پر تین اطراف سے حملہ ہو رہا تھا۔ لیکن دہشت گردوں کے لیے یہ بات غیر متوقع تھی کہ پولیس اتنی چوکنا کیسے ہو سکتی ہے۔ دہشت گردوں سے راکٹ بھی فائر کیے لیکن بنکر اور تھانے کچھ حصوں کو اس کا جزوی نقصان پہنچا۔
ایک اہلکار کو صرف وائرلس پر رابطے کے لیے متعین کر دیا گیا تھا۔ جو مدد کے لیے آنے والی نفری کو تھانے کے گرد دہشت گردوں کی پوزیشن بتا رہا تھا۔
ڈی پی او میانوالی محمد نوید پہلی وائرلیس پر حملے کی اطلاع کے بعد پولیس کمانڈوز اور ریزرو نفری کو لے کر وقوعہ کی طرف روانہ ہو چکے تھے۔ وہ ہر دو منٹ بعد ایس ایچ او ملک فیاض سے بھی رابطے میں تھے۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پشاور واقعے کے بعد بائی ڈیفالٹ ہم الرٹ تھے اور خاص طور پر اس سرحدی تھانے کو ہم نے ہائی الرٹ رکھا ہوا تھا۔ میرا نہیں خیال کہ ہم نے دہشست گردوں کے حملے کے بعد ایک منٹ بھی ضائع کیا ہو۔ اور یہی ہماری سب سے بڑی کامیابی رہی۔‘
حملہ آور دہشت گردوں کی تعداد وائرلس پر دس سے بارہ بتائی جارہی تھی۔ جبکہ تھانے میں اس وقت دو درجن سے مسلح اہلکار تھے۔ لیکن مشکل بات یہ تھی کہ دہشت گرد کھلے علاقے میں تھے جبکہ پولیس اہلکار زیادہ ہونے کے باوجود تھانے کی عمارت میں محسور تھے۔ اور پھر وہ ہوا جس کی خود دہشت گردوں کو بھی توقع نہیں تھی۔
یہ وہ وقت تھا جب دہشت گردوں پران کی صفوں کے پیچھے سے بھی ان پر فائرنگ ہونے لگی۔ ایس ایچ او کے مطابق ’یہ میرے لیے بھی غیرمتوقع تھا کہ دس منٹ میں ہی ہمیں کمک مل گئی اصل میں ایک پولیس پارٹی گشت پر بھی تھی اور جوان سب سے پہلے پہنچے ان کو پوزیشنز کا پتا تھا اس لیے انہوں نے دہشت گردوں پر پیچھے سےوار کر دیا۔‘
یہ وہ وقت تھا جب حملہ آور دہشت گردوں نے پسپائی اختیار کرنا شروع کر دی۔ بھاگتے ہوئے بھی وہ پولیس کو انگیج رکھے ہوئے تھے۔ جب ڈی پی او کی قیادت میں نفری پہنچی اس وقت دہشت گردوں کے خلاف سرچ آپریشن شروع کردیا گیا لیکن وہ کچے کی طرف فرار ہوچکے تھے۔
حملہ آور کون تھے؟
رات دس سے گیارہ بجے کے بیچ تحریک طالبان پاکستان نے بیان کے ذریعے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ ساڑھے نو بجے تھانہ مکڑوال پر حملہ کیا گیا اور اس میں بھاری ہتھیار اور گولا بارود استعمال کیا گیا۔
بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس حملے میں ’ہلاکتوں کا قوی امکان ہے‘
تاہم یہ بات درست ثابت نہیں ہوئی پولیس کے مطابق اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
پولیس کی جانب سے طالبان کے حملے کو پسپا کرنے پر نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی نے پولیس اہلکاروں کو شاباش دی ہے جبکہ آئی جی آفس نے تھانے کے اہلکاروں کو پندرہ لاکھ روپے انعام اور تعریفی اسناد دینے کا اعلان کیا ہے۔
آئی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور بدھ سہ پہر کو تھانہ مکڑوال پہنچے ہیں اور ان تمام اہلکاورں سے ملاقات کی ہے جنہوں نے اس حملے کو ناکام بنایا۔
میاںوالی اور گردونواح کے علاقوں میں اس وقت انٹیلیجنس اداروں اور پولیس کا مشترکہ آپریش جاری ہے جس میں دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور ان کو مدد فراہم کرنے والوں کو بھی ڈھونڈا جا رہا ہے۔