Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چوہدری پرویز الٰہی پہلی مرتبہ انتظامیہ کے نشانے پر، وجہ کیا بنی؟

پرویز الہی نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے کہنے پر اسمبلی توڑی (فوٹو: فیس بک عمران خان)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اس وقت نگراں حکومت ہے اور الیکشن سے متعلق بھی ابھی صورت حال واضح نہیں ہے۔
منگل اور بدھ کی درمیانی رات سابق وزیراعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے آبائی گھر گجرات میں پولیس نے چھاپہ مارا، تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ سابق وزیراعلٰی نے اس ریڈ کی ذمہ داری نگراں حکومت پر ڈالتے ہوئے اس کو انتقامی کارروائی اور الیکشن سے بھاگنے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔
خیال رہے کہ ایک ماہ پہلے چوہدری پرویز الٰہی خود پنجاب کے وزیراعلٰی تھے اور اسمبلی تحلیل کرنے کے حق میں نہیں تھے، تاہم چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے کہنے پر انہوں نے اسمبلی توڑ دی۔ انہوں نے البتہ اس خدشے کا سرعام اظہار کیا تھا کہ حکومت میں نہ ہونے کے سبب انہیں اور تحریک انصاف کو انتقامی کاررائیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
گجرات کے چوہدریوں نے ہمیشہ اقتدار کی سیاست کی ہے اور حالیہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ چوہدری پرویز الہی باقاعدہ مشکل میں دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کے بیٹے مونس الہی ملک سے باہر ہیں، جبکہ ان کے خاندان کے کئی افراد بشمول خواتین کے ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد ہے۔
مشرف دور میں ن لیگ کو خیرباد کہہ کر چوہدری پرویز الہی پانچ سال پنجاب کے وزیراعلی رہے۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو پنجاب میں ن لیگ کی حکومت بنی۔ اس وقت بھی چوہدری خاندان کو باقاعدہ انتقام کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ پنجاب بینک سے متعلق ایک کیس میں مونس الہی پر مقدمہ دائر ہوا، تاہم وہ اس میں سے بھی باآسانی نکل گئے۔
سال 2018 میں پرویز الہی 10 سیٹوں کے باوجود تحریک انصاف کے ساتھ الحاق کر کے پنجاب کے سپیکر بنے اور بعد ازاں عثمان بزدار کے بعد جب پی ڈی ایم انہیں پنجاب کا وزیر اعلی بنا رہی تھی تو وہ عین اسی وقت دوبارہ عمران خان کی سیاست کےساتھ کھڑے ہو گئے، اور تحریک انصاف کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے اور 2022 میں جولائی سے دسمبر تک وزیر اعلی رہے۔
کیا چوہدری پرویز الہی نے مشکل سیاست کا فیصلہ کسی بڑے فائدے کے لیے کیا؟ اس سوال کا جواب سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ چوہدری برادران نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کی ہے۔ اب جب اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آپ کو سیاست سے الگ کرنے کا باضابطہ اعلان کیا ہے تو پرویز الہی سے زیادہ ان کے فرزند مونس الہی نے مشکل سیاست کا فیصلہ کیا اور چوہدری پرویز الہی نے یہ راستہ چنا۔‘

سہیل وڑائچ کے مطابق ’پرویز الہی کو بڑے اچھے طریقے سے پتا تھا کہ عمران خان کا ساتھ دینے کا مطلب کیا ہے۔‘ (فوٹو: فیس بک سہیل وڑائچ)

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’پرویز الہی ایک زیرک سیاستدان ہیں ان کو بڑے اچھے طریقے سے پتا تھا کہ عمران خان کا ساتھ دینے کا مطلب کیا ہے، اور برملا اس کا اظہار بھی کرتے رہے انہوں نے تحریک انصاف کو باقاعدہ 25 مئی کے واقعات کا حوالہ بھی دیا کہ جب حکومت ساتھ نہیں ہوتی تو اس بات کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں انہوں نے ایک جوا کھیلا۔ اور وہ اس میں کتنے کامیاب ہوں گے اب ایک آدھ واقعے سے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ان کا جوا عمران خان کی سیاست پر زیادہ منحصر ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پچھلے 25 برسوں میں پرویز الہی نے احتجاجی سیاست نہیں کی ہے اور نہ ان کی سیاسی جماعت ایسی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بدلتی سیاسی فضا نے انہیں ایک مختصر دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔‘
پرویز الہی کے گھر پولیس نے چھاپہ کیوں مارا اس حوالے سے نگران حکومت اور آئی جی آفس سے بار ہا رابطہ کیا گیا، لیکن اس کی کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی۔ پرویز الہی نے البتہ لاہور ہائی کورٹ میں بدھ کے روز ایک درخواست جمع کروائی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ان کے خلاف مقدمات اگر ہیں تو ان کی تفصیل فراہم کی جائے۔ عدالت نے تین فرورری تک نگران حکومت سے جواب طلب کر لیا ہے۔
چوہدری پرویز الہی کے وکیل اور ترجمان عامر سعید راں کے مطابق گجرات میں منگل اور بدھ کی درمیانی رات دو درجن سے زائد پولیس کی گاڑیوں نے گھر پر چھاپہ مارا اور پولیس اہلکار تلاشی لیتے رہے۔ گھر میں پرویز الہی یا مونس الہی موجود نہیں تھے۔

مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ ’اہم بات یہ کہ پرویز الہی کے گھر پر چھاپے کی اصل وجوہات سامنے لائی جانی چاہیں۔‘ (فوٹو: فیس بک مجیب الرحمن شامی)

سینیئر تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ ’اہم بات یہ کہ اس چھاپے کی اصل وجوہات سامنے لائی جانی چاہیں۔ نگران حکومت کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ اور اس وقت انتقامی کارروائی کسی کے بھی حق میں نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چوہدری پرویز الہی اس وقت اپنی ساری سیاست اپنے بیٹے کے مستقبل کے حوالے سے کر رہے ہیں۔ انہوں نے دہائیوں پر محیط اپنے بڑے بھائی کے ساتھ شروع کی جانے والی سیاست میں بھی اسی وجہ سے دراڑ ڈال لی ہے۔ اس عمل میں وہ بھی اب نشانے پر آ گئے ہیں۔‘
مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ ’اس میں تو کوئی دو رائے ہیں ہی نہیں کہ عمران خان کے ساتھ چلنے میں اس طرح کی صورت حال کا سامنا ان کو کرنا پڑنا تھا اور اس بات کا سب سے زیادہ ادراک بھی انہیں ہی تھا۔ اگر وہ اس وقت پی ڈی ایم کے وزیر اعلی بن جاتے تو وہ آج بھی وزیر اعلی ہوتے۔ انہوں نے غیرمتوقع طور پر بڑے فیصلے کیے ہیں۔ جن کی اپنی قیمت بھی ہے۔‘

شیئر: