Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبر پختونخوا پولیس نے تھانوں پر شدت پسندوں کے حملے کیسے ناکام بنائے؟

تقرری کے بعد انسپکٹر جنرل پولیس اختر حیات نے تھانہ سربند کے حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیا۔ (فوٹو: کے پی پولیس)
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران شدت پسندوں کی جانب سے خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں پولیس پر 10 سے زائد حملے کیے گئے تاہم پولیس کا دعوٰی ہے کہ نئی حکمت عملی کے تحت تمام حملے جوابی کارروائی میں ناکام بنائے گئے۔
تازہ حملے ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، لکی مروت اور پشاور میں سربند کے پولیس تھانوں پر کیے گئے۔
حالیہ کچھ مہینوں سے شدت پسندوں نے پولیس تھانوں اور چوکیوں کو نشانہ بنایا ہے جس میں متعدد اہلکاروں جان سے گئے۔
ڈی آئی خان کے پولیس سٹیشن پر فروری کے مہینے میں دو حملے کیے گئے۔ شدت پسندوں کی جانب سے سب سے بڑی کارروائی 13 فروری کی شب کھتی چیک پوسٹ پر کی گئی جس میں حملہ آوروں نے جدید ہتھیاروں کا استعمال کیا، مگر پولیس کی دفاعی حکمت عملی نے حملہ پسپا کر دیا۔
شدت پسندوں کے اس حملے میں ایک پولیس اہلکار گولی لگنے سے زخمی ہوا۔
پولیس حکام کے مطابق لکی مروت میں آٹھ فروری کو شدت پسندوں کی کارروائی اس وقت ناکام بنا دی گئی جب دہشت گرد پولیس پر حملے کے لیے جا رہے تھے۔
پولیس اور سکیورٹی فورسز نے مشترکہ آپریشن کر کے 12 خطرناک شدت پسندوں ہلاک کرنے کا دعوٰی کیا۔ اس شدت پسندوں کا تعلق ٹی ٹی پی کے اظہرالدین گروپ سے  تھا۔
ضلع لکی مروت میں 12 فروری کو چوکی بخمل پر مسلح افراد کا حملہ بھی ناکام بنایا گیا۔ اس میں پولیس کا ساتھ بخمل احمد زئی قوم نے بھی دیا اور شدت پسندوں کو بھاگنے پر مجبور کیا۔

خیبر پختونخوا کی پولیس سرچ اور کومبنگ آپریشنز بھی کر رہی ہیں۔ (فوٹو: کے پی پولیس)

گزشتہ ایک ماہ کے دوران ضلع ٹانک کی پولیس پر پانچ حملے کیے گئے۔
11 فروری کو تھانہ گومل پر 15 شدت پسندوں نے بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا لیکن پولیس نے بھرپور جوابی کارروائی کی جو کہ 15 منٹ تک جاری رہی۔
دہشت گردوں کا حملہ پسپا کرنے پر آئی جی پولیس اختر حیات نے ٹانک پولیس کی تعریف کی اور بہادری پر ایس ایچ او کے لیے 50 ہزار نقد انعام اور توصیفی سرٹیفکیٹ کا اعلان بھی کیا۔
ضلعی پولیس افسر وقار خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ٹانک کی پولیس کو سب سے زیادہ شدت پسندوں سے واسطہ پڑا کیونکہ ان کی باقاعدہ تربیت نہیں ہوئی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پولیس کی دفاعی اور جوابی کارروائی  کو موثر اور مضبوط بنانے کے لیے بہت محنت کرنی پڑی مگر اب کچھ ہی عرصے میں پولیس کو پیرا ملٹری فورس میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔‘
ڈی پی او وقار خان کے مطابق ’ٹانک پولیس کو شروع میں بہت نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ دہشت گردوں کے پاس جدید تھرمل سائٹ ہتھیار تھے۔‘
’ہم نے نہ صرف پولیس اہلکاروں کو جدید ہتھیاروں سے لیس کر دیا بلکہ اب حکمت عملی بھی تبدیل کر دی ہے۔‘

پولیس نے چیک پوسٹوں پر بھی نگرانی سخت کی ہے۔ (فوٹو: کے پی پولیس)

ان کا کہنا تھا کہ ’آٹھ تھرمل امیجنگ ٹانک پولیس کے پاس ہے جس کی مدد سے دہشت گردوں کی حرکت کا دور سے پتا لگایا جا رہا ہے جبکہ پاکستان فوج کی جانب سے دو تھانوں میں تھرمل امیجنگ کیمرے بھی نصب کر دیے گئے ہیں جس سے دو کلومیٹر تک نگرانی ہوتی ہے۔‘
ڈی پی او ٹانک وقار خان نے کہا کہ حساس چوکیوں اور تھانوں کے اردگرد خندقیں کھودی گئی ہیں جس کا فائدہ پولیس کو ہوا اسی طرح چیک پوسٹ پر پہلے چار اہلکار ڈیوٹی دیتے تھے مگر اب 15 سے 20 اہلکار ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس نئی حکمت عملی اور پلاننگ کی بدولت دہشت گردوں کے سارے حملے پسپا ہوئے جس میں تین دہشت گرد ہلاک کیے گئے اور دو زخمی ہوئے۔
محکمہ انسداد دہشت گردی کے حکام نے اردو نیوز کو بتایا کہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے بارے میں معلومات اکھٹی کی جا رہی ہیں جس سے پولیس افسران کو آگاہ کیا جاتا ہے ۔
صحافی لحاظ علی سمجھتے ہیں کہ 2013 اور 2014 کے بعد پولیس کی صلاحیت میں کافی حد تک بہتری آئی ہے تاہم ’اب بھی نہ صرف وسائل اور پیشہ ورانہ حکمت عملی کی کمی ہے بلکہ شدت پسندوں کے خلاف مورال کی کمی‘ بھی پائی جاتی ہے۔
لحاظ علی کا کہنا ہے کہ صرف بلٹ پروف جیکٹ یا اے کے 47 دینا کوئی حکمت عملی نہیں، حکمت عملی کے اور بھی طریقے ہیں جو خیبر پختونخوا کی پولیس کے پاس نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ایک فورس جو تقریباً 18 برس سے شدت پسندوں کے خلاف لڑ رہی ہے انہیں اس متعلق اب مکمل طور پر حکمت عملی اور ہتھیاروں سے لیس ہونا چاہیے کہ شدت پسندوں سے کیسے نمٹنا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایک ماہ قبل شدت پسندوں کے حملے ناکام بنانے کے لیے حکمت عملی تبدیل کیوں نہیں کی گئی؟

گزشتہ ایک ماہ کے دوران ضلع ٹانک کی پولیس پر پانچ حملے کیے گئے۔ (فوٹو: کے پی پولیس)

انٹیلی جنس کی بنیاد پر کئی ایسے آپریشن ہوئے جن میں حملوں سے قبل شدت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا۔
انسپکٹر جنرل پولیس اختر حیات نے پشاور کے مضافات میں واقع تھانہ سربند کا دورہ کیا اور حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیا۔ آئی جی نے تھانے میں شدت پسندوں کے ممکنہ حملے کو ناکام بنانے کے لیے لیے گئے سکیورٹی اقدامات کا جائزہ لیا۔
یاد رہے کہ  گزشتہ ماہ 14 جنوری کو سدت پسندوں نے سربند پولیس سٹیشن پر حملہ کرکے ڈی ایس پی سمیت تین پولیس اہلکار ہلاک کیے۔
30 جنوری کو پشاور پولیس لائنز دھماکے میں 84 پولیس اہلکار مارے گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد پولیس حکام کی جانب سے دفاعی اور جوابی کارروائی کی حکمت عملی میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

شیئر: