Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور: پی ٹی آئی قیادت گرفتاری دیے بغیر واپس، ’وین کے ٹائر پنکچر تھے‘

پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی قیادت اور کارکنوں نے تین گھنٹوں تک سینٹرل جیل پشاور کے باہر احتجاج کیا مگر گرفتاری نہ دی۔ 
’جیل بھرو تحریک‘ کے سلسلے میں آج پشاور میں گرفتاری دینے کا اعلان کیا گیا تھا مگر دن بھر احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے بعد پی ٹی آئی قیادت میں سے کسی نے گرفتاری دی اور نہ ہی پولیس نے ان پر ہاتھ ڈالا۔
آج صبح گلبہار سے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا صوبائی صدر پرویز خٹک نے کارکنوں سے خطاب کر کے ہشت نگری پہنچنے کی ہدایت کی۔ 
ہشت نگری چوک پر احتجاج
قیادت کی کال پر کارکنوں کی بڑی تعداد ہشت نگری پہنچی جہاں دو گھنٹے تک کارکنوں نے پرویز خٹک اور اسد قیصر کا انتظار کیا۔ پولیس کی بھاری نفری پہلے سے ہشت نگری پر موجود تھی۔
طویل انتظار کے بعد پی ٹی آئی قیادت ٹرک پر نمودار ہوئی اور کارکنوں سے خطاب کیا۔
 پرویز خٹک نے آخر میں کارکنوں سے خطاب کیا اور سینٹرل جیل جا کر گرفتاری دینے کا اعلان کیا۔
سنٹرل جیل کے باہر مظاہرہ
صوبائی صدر کے اعلان کے بعد تمام قائدین اور کارکن سینٹرل جیل کی جانب دوڑنے لگے جہاں جا کر کارکنوں نے جیل گیٹ پر دھاوا بولا۔ سینٹرل جیل گیٹ کے اندر اور باہر پولیس کے اہلکاروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
 دھکم پیل کے دوران کارکنوں اور پولیس کی ہاتھا پائی بھی ہوئی مگر پولیس نے کسی کو گرفتار نہیں کیا۔
احتجاج کے باعث سینٹرل جیل کے باہر ٹریفک معطل رہی۔ کچھ دیر بعد ایس پی کینٹ وقاص احمد نے اعلان کیا کہ جس کو گرفتاری دینی ہے وہ قیدیوں کی وین میں بیٹھ جائے۔

سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ ’ہم تو جیل کے باہر گرفتاری دینے آئے ہیں مگر کوئی ہمیں گرفتار نہیں کر رہا۔‘ (فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر)

پولیس کا اعلان سن کر سات سابق ایم پی ایز سمیت ایک ایم این اے دیگر عہدیداروں سمیت وین میں بیٹھ گئے۔ مگر قیدی وین میں تصاویر اور ویڈیوز بنانے کے بعد پی ٹی آئی کے قائدین واپس اتر گئے۔ ان کی جانب سے وجہ یہ پیش کی گئی کہ ’گاڑی کے ٹائر پنکچر ہیں۔‘
نجی ٹی وی کے رپورٹر سجاد حیدر نے اردو نیوز کو بتایا کہ پی ٹی آئی کارکنوں نے خود وین کے ٹائر پنکچر کیے تاکہ گاڑی ان کو نہ لے جا سکے۔
سابق ایم پی اے وزیر زادہ کا کہنا تھا کہ ’پولیس نے خود ٹائر پنکچر کیے ورنہ ہم تو جیل جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھے تھے۔ پولیس خود ہمیں نہیں لے جانا چاہتی۔‘
سابق وزیر خزانہ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ’ہم تو جیل کے باہر گرفتاری دینے آئے ہیں مگر کوئی ہمیں گرفتار نہیں کررہا۔ یہ حکومت ہمیں گرفتار کرنے سے بھی ڈر رہی ہے۔‘ 
پی ٹی آئی کارکن پر تشدد
پی ٹی آئی قیادت پر گرفتاری نہ دینے کی وجہ سے کچھ کارکنوں نے اعتراض بھی اٹھایا مگر دیگر کارکنوں کی جانب سے ان پر تشدد کیا گیا۔ کارکنوں نے کہا کہ ’اعتراض کرنے والے پی ٹی آئی کے کارکن نہیں تھے۔‘
سابق گورنر شاہ فرمان کی حالت غیر
سنٹرل جیل کے سامنے نعرے بازی کے دوران سابق گورنر شاہ فرمان کی حالت غیر ہوگئی اور انہوں نے فوراً کارکن سے گنے کا جوس منگوا کر پیا۔
شاہ فرمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم آخری دم تک احتجاج کریں گے، لیکن واپس نہیں جائیں گے۔‘
احتجاج ختم کرنے کا اعلان
تین گھنٹے مسلسل احتجاج کے بعد پرویز خٹک نے کارکنوں سے خطاب کیا اور منتشر ہونے کی ہدایت کی۔

سنٹرل جیل کے سامنے نعرے بازی کے دوران سابق گورنر شاہ فرمان کی حالت غیر ہوگئی (فوٹو: پی ٹی آئی پشاور)

پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کر رہے ہیں مگر پولیس ہمیں گرفتار نہیں کر رہی۔ لہٰذا اج سب واپس جائیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگلے لائحہ عمل کا اعلان عمران خان کے ساتھ مشورے کے بعد کیا جائے گا۔
پرویز خٹک کے خطاب کے بعد تمام قائدین اور کارکن گاڑیوں میں بیٹھ کر واپس چلے گئے۔
کارکن پولیس کی تحویل میں
پی ٹی آئی کی قیادت نے گرفتاری نہ دی مگر کچھ کارکن زبردستی سینٹرل جیل کے مرکزی گیٹ سے اندر گھس گئے جن کو پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا۔
دوسری جانب پولیس اور انتظامیہ نے تاحال کسی گرفتاری کی تصدیق نہیں کی۔
اپوزیشن کا ردعمل
’جیل بھرو تحریک‘ پر پی ڈی ایم جماعتوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔
عوامی نیشنل پارٹی کی ترجمان ثمر بلور نے اپنے بیان میں کہا کہ ’یہ ایک تحریک نہیں بلکہ ڈرامہ تھا جو کہ فلاپ ہو گیا۔‘
مسلم لیگ ن کے رہنما اختیار ولی کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی والے وین میں سیلفی لینے کے لیے بیٹھے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس تحریک کی حقیقت آج سب کے سامنے آگئی۔‘

شیئر: