برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق جنگ کا ایک برس مکمل ہونے کے سلسلے میں صدر پوتن نے کئی ایک سخت تقاریر کیں۔
روسی صدر نے جمعرات کو اپنی عزائم کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’رواں برس ملٹی وار ہیڈ انٹرکانٹینینٹل بیلسٹک میزائل نصب کیے جائیں گے۔‘
رواں ہفتے کے آغاز میں انہوں نے امریکہ کے ساتھ ہتھیاروں کے کنٹرول کے معاہدے ’نیو سٹارٹ‘ میں روس کی شمولیت معطل کر دی تھی۔
کریملن کی جانب سے جاری بیان کے مطابق صدر پوتن کا زمین، سمندر اور فضا میں موجود جوہری میزائلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ’روس اپنی جوہری صلاحیت کو مضبوط بنانے پر زیادہ توجہ دے گا۔‘
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا کہ روس یوکرین میں اپنی ’تاریخی‘ سرزمین کے لیے لڑ رہا ہے، اور اس کے فوجی ’بہادری، دلیری اور جرات سے لڑ رہے ہیں، ہمیں ان پر فخر ہے۔‘
ولادیمیر پوتن کی جانب سے دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں سب سے بڑی زمینی جنگ شروع کرنے کے ایک برس بعد یوکرین اور اس کے مغربی اتحادیوں نے جوہری مذاکرات کو روس کی ناکام فوجی مہم کے تناظر میں ختم کر دیا ہے۔
روس اور یوکرین کی جنگ کو ایک برس مکمل ہونے پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے مانیٹرنگ مشن کا کہنا ہے کہ ’جنگ میں 8 ہزار سے زائد سویلین ہلاک جبکہ 13 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ جنگ میں 487 بچے بھی ہلاک جبکہ 954 زخمی ہوئے ہیں۔‘
اقوام متحدہ کا روس کے خلاف نئی پابندیاں لگانے کا امکان
اُدھر وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ’یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کا ایک سال مکمل ہونے پر اقوام متحدہ جمعے کے روز روس کے خلاف بڑے پیمانے پر نئی اقتصادی پابندیاں لگانے جا رہی ہے۔‘
جمعے کو جی سیون ممالک برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور امریکہ کے ورچوئل سربراہی اجلاس کے ایجنڈے پر یوکرین کی جنگ کا معاملہ سرفہرست ہوگا جس میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی بھی شریک ہوں گے۔
ماسکو کے یوکرین پر حملے کو ایک سال مکمل ہونے سے قبل چین نے بدھ کو روس کے ساتھ مضبوط شراکت داری کے عزم کا اظہار کیا ہے جبکہ امریکی صدر جو بائیڈن نے دورہ یورپ کے دوران اتحادیوں سے ملاقاتیں کی ہیں۔
دوسری جانب یوکرین میں 24 فروری کو حملے کے ایک برس مکمل ہونے پر روسی میزائل حملوں میں اضافے کے خوف سے سکولوں کی کلاسیں پورے ہفتے کے لیے آن لائن کر دی گئی ہیں۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی، جو کہ یوکرین پر حملے کے بعد روس کا دورہ کرنے والے اعلٰی ترین چینی عہدیدار ہیں، نے صدر پوتن سے کہا کہ ’بیجنگ تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہے۔‘