اتوار کو نشر ہونے والے انٹرویو میں پوتن کا نیٹو ممالک کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’وہ اربوں ڈالروں کے ہتھیار یوکرین بھیج رہے ہیں۔ یہ حقیقت میں (جنگ میں) شرکت ہے۔‘
’اس کا مطلب ہے کہ وہ بالواسطہ طور پر کیئف کے جرائم کا حصہ بن رہے ہیں۔‘
روسی صدر نے کہا کہ مغربی ممالک کا ’ایک ہی مقصد ہے جو سابق سوویت یونین اور اس کے مرکزی حصے روسی فیڈریشن کو توڑنا ہے۔‘
’تب ہی شاید وہ ہمیں مہذب لوگوں کے نام نہاد خاندان میں قبول کریں گے لیکن صرف الگ الگ، ہر حصہ الگ۔‘
ولادیمیر پوتن نے جمعرات کو ماسکو میں یوکرین پر روس کے حملے کا پہلا برس مکمل ہونے کے موقع پر ایک ریلی سے بھی خطاب کیا تھا۔
انہوں نے انٹرویو میں ایک بار پھر ملٹی پولر دنیا کی اہمیت کو دہرایا اور کہا کہ انہیں کوئی شک نہیں کہ ایسا ہو گا۔
’ہم کس کے خلاف ہیں؟ اس حقیقت کے خلاف کہ یہ نئی دنیا جو شکل اختیار کر رہی ہے وہ صرف ایک ملک یعنی امریکہ کے مفادات میں تعمیر ہو رہی ہے۔‘
روس کے صدر ولادیمیر پوتن کا مزید کہنا تھا کہ ’اب جب کہ سوویت یونین کے زوال کے بعد دنیا کو ان کی اپنی مرضی کی شکل میں ڈھالنے کی ان کی کوششیں اس صورت حال کا باعث بنی ہیں، تو ہم اس پر ردعمل ظاہر کرنے کے پابند ہیں۔‘
واضح رہے کہ انڈیا میں ہونے والی جی 20 ممالک کی کانفرنس میں بیشتر نمائندوں نے روس کی یوکرین کے خلاف جنگ کی شدید الفاظ میں مذمت کی لیکن چین اور روس نے مشترکہ اعلامیے پر دستخط نہیں کیے۔
روئٹرز کے مطابق گروپ آف ٹوئنٹی اکانومیز (جی 20) کے اجلاس کی میزبانی کرنے والا انڈیا بھی روس یوکرین جنگ کا معاملہ اٹھانے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھا لیکن مغربی ممالک نے اس بات پر اصرار کیا کہ وہ اس کی شدید مذمت سے کم پر راضی نہیں ہوں گے۔
جی 20 اجلاس کے بعد ’چیئر سمری اور نتائج کی دستاویز‘ جاری کی گئی جس کے مطابق یہ اجلاس مکمل اتفاق رائے پر منتج نہیں ہو سکا۔