نربھیا کیس میں مجرموں کو سزائے موت دینے کے فیصلے کے بعد اب اس ملک میں کوئی بھی کسی خاتون کے ساتھ ایسی بربریت اور درندگی کا مظاہرہ نہیں کرے گا
* * * ** معصوم مرادآبادی* * * * *
میں 16دسمبر 2012کی تاریک ترین اور سرد رات کو ایک 23سالہ دوشیزہ کے ساتھ 6نوجوانوں نے زیادتی کا جو مظاہرہ کیا تھا، اس کی نظیر ہندوستان میں جرائم کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔اس واقعہ نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور لوگ سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر نکل آئے تھے۔نربھیا کے نام سے شہرت پانے والی اس دوشیزہ نے 2ہفتوں تک زندگی اور موت کی کشمکش کے بعد سنگا پور کے ایک اسپتال میں دم توڑ دیا تھا۔ انتہائی خوف ناک واردات کا پورے ملک پر اتنا اثر تھا کہ ہر شخص صدمے سے نڈھال ہو گیا تھا۔زبردست عوامی احتجاج کے بعد حکومت زیادتی کے قانون میں ترمیم کرنے پر مجبور ہوئی اور نئے قانون کے تحت ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز ہوا۔فاسٹ ٹریک عدالت میں مقدمہ کی کارروائی آگے بڑھی جہاں ملزمان کو سزائے موت دئیے جانے کا فیصلہ ہوا۔
ہائی کورٹ نے بھی اس کی تصدیق کی۔اس دوران ایک ملزم نے دہلی کی تہاڑ جیل میں خودکشی کرلی اور چھٹا ملزم نابالغ ہونے کی وجہ سے 3 سال جیل میں گزار کر بری ہوگیا۔ملزمان نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا لیکن معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے چاروں ملزمان کو سزائے موت دئیے جانے کے فیصلے پر مہر لگادی۔اس طرح نربھیا کیس کے چاروں مجرموں اکشے ٹھاکر ، ونے شرما،پون گپتا اور مکیش سنگھ کو پھانسی پر چڑھانے کا راستہ صاف ہوگیا۔یہ ملک کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ زیادتی کے مجرموں کو سزائے موت دی جائیگی۔سپریم کورٹ نے چاروں مجرموں کی سزائے موت پر مہر لگاتے ہوئے کہا ہے کہ’’ اس واردات نے سماج کا اعتماد توڑا تھا جس سے صدمے کی سونامی آگئی تھی۔ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی دوسری دنیا کی کہانی ہے اور ایسے مجرموں کیلئے قانون میں کسی بھی طرح کے رحم کی گنجائش نہیں‘‘۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر اطمینان ظاہر کرتے ہوئے بدنصیب نربھیا کی ماں نے کہا ہے کہ ’’وہ اب سکون کی نیند سوئے گی۔ چاروں مجرموں کو پھانسی پر لٹکائے جانے تک چین سے نہیں بیٹھے گی۔‘‘
اس فیصلے سے ایک روز پہلے ممبئی ہائیکورٹ نے 2002کی گجرات نسل کشی کے ایک مقدمے میں بلقیس بانو سے اجتماعی زیادتی کرنے والے 11ملزمان کو عمر قید کی سزا برقرار رکھی تھی۔3مارچ 2002کو وحشی درندوں کے ہاتھوں زیادتی کا شکار ہونے والی 19سالہ بلقیس بانو نے نربھیا کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے امید ہے کہ عدالت عظمیٰ اسکے ساتھ بھی انصاف کریگی اور تمام 11مجرموں کو سزائے موت دی جائیگی۔اگر غور سے دیکھا جائے تو نربھیا اور بلقیس کے مقدموں میں کئی باتیں ایک جیسی ہیں۔بلقیس بانو کیس کی پیروی کرنے والی سی بی آئی نے ممبئی ہائی کورٹ سے 3مجرموں کو سزائے موت دئیے جانے کا مطالبہ کیا تھالیکن عدالت عالیہ نے سی بی آئی کی دلیل تسلیم نہیں کی اور ملزمان کو دی گئی عمر قید کی سزا بحال رکھی۔ بلقیس بانو کا معاملہ 2002کے مسلم کش فسادات سے تعلق رکھتا ہے جس میں درندگی ، بربریت اور وحشت کی تمام حدیں پار کرلی گئی تھیں۔بلقیس بانو کی پوری کہانی رونگٹے کھڑے کردینے والی ہے۔جن لوگوں نے بلقیس سے زیادتی کی اور اسکے رشتہ داروں کو موت کے گھاٹ اتاراوہ سب کے سب اس کے آس پڑوس میں رہنے والے تھے۔ 3مارچ 2002کو بلقیس بانو حملہ آور ہجوم سے بچنے کیلئے ا یک ٹرک میں چھپ کر جارہی تھی۔بلقیس اس وقت 5 ماہ کی حاملہ تھی ۔
اس کے ساتھ ٹرک میں 17دیگر لوگ بھی اپنی جان بچا کر بھاگ رہے تھے،جن میں اس کیسال کی بیٹی بھی شامل تھی۔خطرناک ہتھیاروں سے لیس ہجوم نے ٹرک پر حملہ کیا۔بلقیس کی اجتماعی زیادتی کی گئی اور اس کی کمسن بیٹی سمیت 14لوگوںکو وحشیانہ طور پر قتل کردیا گیا۔بلقیس کا المیہ یہیں پر ختم نہیں ہوا بلکہ وہ جب اپنے ساتھ ہونے والی وحشت وبربریت کی شکایت لے کر پولیس کے پاس پہنچی تو اسے دھمکی دیکر بھگا دیا گیا۔اسکے بعد اس نے حقوق انسانی کمیشن سے رجوع کیا اور سپریم کورٹ میں بھی عرضی داخل کی۔معاملہ سی بی آئی کو سونپ دیا گیا ۔ اس دوران ملزمان کی طرف سے دھمکیاں ملنے پر یہ کیس گجرات سے مہاراشٹر منتقل کردیا گیا۔ممبئی کی عدالت نے 19ملزمان کیخلاف الزامات طے کئے جن میں ملزمان کو تحفظ فراہم کرنے والے 6پولیس آفیسر اور ایک سرکاری ڈاکٹر تھا۔جنوری 2008 میں ان میں سے 11ملزمان کو اجتماعی زیادتی اور قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور باقی کو بری کردیا گیا۔ملزمان نے ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی ۔عدالت عالیہ نے ذیلی عدالت کی طرف سے دی گئی سزا برقرار رکھی تاہم ان میں سے 3ملزمان کو سزائے موت دئیے جانے کی سی بی آئی کی اپیل کو خارج کردیا۔اس فیصلے کے بعد بلقیس بانو نے کہا کہ’’ ایک عورت اور ماں کے طور پر اسکے حقوق کو انتہائی بربریت کے ساتھ پامال کیا گیا ۔
اس فیصلے نے سچائی پر مہر لگائی ہے اور عدالت میں اسکے اعتماد کو برقرار رکھا ہے۔‘‘تاہم اگلے روز نربھیا کیس کے مجرموں کو سزائے موت دئیے جانے کے فیصلے پر بلقیس بانو نے کہا کہ ’’جس طرح نربھیا کے مجرموں کو سزائے موت سناوی گئی ہے اسی طرح میرے مجرموں کو بھی سزائے موت ملنی چاہیے‘‘۔بلقیس اور اسکے شوہر یعقوب کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنے کیلئے اپنے وکیلوں سے مشورہ کریںگے ۔انہوں نے کہاکہ نربھیا کیس میں مجرموں کو سزائے موت دینے کے فیصلے کے بعد اب اس ملک میں کوئی بھی کسی خاتون کے ساتھ ایسی بربریت اور درندگی کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔نربھیا کیس کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بلقیس نے کہا کہ مجھے عدالت پر پورا بھروسہ ہے اور امید ہے کہ میرے مقدمے میں بھی سپریم کورٹ مجرموں کو سزائے موت دینے کا اعلان کرے گا۔ نربھیا اور بلقیس بانو کے کیس میں صرف اتنا فرق ہے کہ نربھیا کا مقدمہ عوام اور ملک کے نظام نے مل کر لڑا جبکہ بلقیس تن تنہا اپنے ساتھ ہونے والے ظلم وبربریت کا مقابلہ کرتی رہی۔ ہندوستان کی 2بیٹیوں کے ساتھ ہونے والے بدترین ظلم کے معاملے میں انصاف کے الگ الگ پیمانے سوال ضرور کھڑا کرتے ہیں۔