پاکستان کی وفاقی حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان رسہ کشی جاری ہے۔ یہ تناؤ اُس وقت مزید بڑھ گیا جب وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار عشرت علی کی خدمات واپس لیں اور انہیں کیبنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے او ایس ڈی بنا دیا۔
یہ اقدام رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے چیف جسٹس پاکستان کی ہدایت پر جاری کیے گئے سرکلر کے ردعمل میں اُٹھایا گیا تھا۔
سرکلر میں کیا تھا؟
جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اکثریتی فیصلے میں چیف جسٹس سمیت دیگر ججز کو سپریم کورٹ میں حال ہی میں لیے گئے تمام سوموٹو نوٹسز کی سماعت سے روک دیا تھا۔
مزید پڑھیں
-
وفاقی کابینہ کا رجسٹرار سپریم کورٹ کی خدمات واپس لینے کا فیصلہNode ID: 755541
اس فیصلے کے اثرات ختم کرنے کے لیے رجسٹرار سپریم کورٹ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ہدایت پر ایک سرکلر جاری کیا تھا جس کے ردعمل میں وفاقی حکومت نے ایک انتظامی حکم کے ذریعے رجسٹرار سپریم کورٹ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔
منگل کو رجسٹرار عشرت علی اپنے دفتر میں آئے اور اپنے امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔ پاکستان کے رائج قانون کے مطابق عدلیہ (چاہے وہ سپریم کورٹ ہو یا کسی بھی صوبے کی ہائی کورٹ) میں رجسٹرار ایک کلیدی عہدہ ہوتا ہے جس کے ذمّے عدالتوں کے ایگزیکٹو معاملات چلانا ہوتا ہے۔
رجسٹرار کا عہدہ کتنا اہم ہے؟
رجسٹرار کی آئینی حیثیت اور اُس کا عہدہ کتنا طاقت ور ہوتا ہے یہ جاننے کے لیے اُردو نیوز نے لاہور ہائی کورٹ کے سابق رجسٹرار خورشید انور سے بات چیت کی ہے۔
خورشید انور سمجھتے ہیں کہ ’رجسٹرار کا عہدہ انتظامی حوالے سے کسی بھی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا سب سے طاقتور ایگزیکٹو عہدہ ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک صوبے کا چیف سیکریٹری ہو۔‘
انہوں نے بتایا کہ ہائی کورٹ کا رجسٹرار پورے صوبے کی ماتحت عدلیہ کا بھی ایک طرح کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے۔ ’اس کے پاس وہ تمام اختیار ہوتے ہیں جو رولز میں درج ہیں۔ تقرّر وتبادلے ہوں یا کسی جج کے حکم پر عمل درآمد کروانا ہو یہ سب رجسٹرار کرتا ہے۔ اس کے پاس پیسوں کے اجرا اور ہر طرح کے اخراجات کی بھی آزادی ہوتی ہے۔‘
خورشید انور نے بتایا کہ ’تمام عدالتی اسٹیبپلشمنٹ رجسٹرار کو جواب دہ ہوتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے مراد یہاں جوڈیشل افسران ہیں جو ایک نائب قاصد سے لے کر اسسٹنٹ رجسٹرار، ڈپٹی اور پھر ایڈیشنل رجسٹرار پر مشتمل ہوتی ہے۔‘
تو کیا کوئی رجسٹرار ہر جج کے ہر حکم کو ماننے کا پابند ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق رجسٹرار کا کہنا تھا کہ ’یہاں بھی وہی اصول کاربند ہے جو کسی بھی سرکاری افسر کے لیے ہوتا ہے۔ یعنی ہر قانونی اور جائز حکم پر عمل درآمد کرنا سرکاری افسر کی ڈیوٹی میں شامل ہے۔‘
