سعودی عرب میں کان کنی کےلیے ایک ماہ میں 18 اجازت نامے جاری
سعودی عرب میں کان کنی کےلیے ایک ماہ میں 18 اجازت نامے جاری
جمعہ 7 اپریل 2023 22:16
فروری تک جاری لائسنسوں کی مجموعی تعداد دو ہزار 230 ہے( فوٹو: عرب نیوز)
سعودی عرب میں کان کنی کا شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ گذشتہ ماہ فروری میں 18 نئے اجازت نامے جاری کیے گئے ہیں۔
سعودی وزارت صنعت اور معدنی وسائل کے مطابق یہ تعداد جنوری میں جاری کیے گئے 46 لائسنس سے کم ہے لیکن چونکہ یہ معیشت کے ایک حصے میں ترقی کو ظاہر کرتی ہے جسے مملکت ترقی دینے کی خواہشمند ہے۔
عرب نیوز کے مطابق سعودی وزارت صنعت اور معدنی وسائل نے بلڈنگ میٹریل کی کھدائی کے لیے نو لائسنس جاری کیے۔ سات تلاش کے لیے، ایک کان کنی اور چھوٹی کانوں جب کہ ایک اضافی معدنی دھاتوں کے لیے جاری کیا ہے۔
اس شعبے میں فروری تک جاری ہونے والے لائسنسوں کی مجموعی تعداد دو ہزار 230 تھی جن میں بلڈنگ میٹریل کی کھدائی کی کھدائی کے لیے ایک ہزار 327 اجازت نامے، 653 پرمٹ سکیویننگ، 179 کان کنی اور چھوٹی کانوں، 40 تلاش کی سرگرمیوں کے لیے اور 31 معدنی دھاتوں کے اضافی پرمٹ شامل ہیں۔
ریجنوں کے لحاظ سے ریاض نے 512، مکہ نے 412، مشرقی صوبہ نے 372، مدینہ نے 245،عسیر نے 188، تبوک نے 140، القصیم نے 101، حائل نے 67، جازان نے 65، نجران نے 45، الباحہ نے 36، شمالی سرحدوں نے 26 اور الجوف نے 21 پرمٹ حاصل کیے۔
وزارت مملکت کے وژن 2030 اور نیشنل انڈسٹری ڈویلپمنٹ اینڈ لاجسٹکس پروگرام کے اہداف کے مطابق کان کنی کے شعبے کے تحفظ کے لیے مواقع تلاش کر رہی ہے۔
سعودی عرب میں معدنی وسائل کی مالیت تقریباً 5 ٹریلین ریال ہے ( فوٹو: عرب نیوز)
مملکت کان کنی کو قومی صنعت کے تیسرے ستون میں تبدیل کرنے اور پانچ ہزار 300 سے زیادہ سائٹس پر پھیلی معدنی وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لیے کام کر رہی ہے اور اس کی قیمت تقریباً 5 ٹریلین ریال ہے۔
گزشتہ جنوری میں آسٹریلوی کان کنی کمپنی بی ایچ پی کے سی ای او مائیک ہنری نے کہا تھا کہ ’ دنیا بھر میں اہم معدنیات کی کان کنی کی سرگرمیوں کو اگلے 30 برسوں میں توانائی کی منتقلی کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے تیز کیا جانا چاہیے کیونکہ دنیا ایک پائیدار مستقبل کا خواب دیکھ رہی ہے‘۔
ریاض میں فیوچر منرلز فورم سے خطاب کرتے ہوئے مائیک ہنری نے کہا تھا کہ ’ اگر دنیا موجودہ رفتار سے چلتی رہی تو اہم معدنیات کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنا ناممکن ہے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ اگلے 30 برسوں میں توانائی کی منتقلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دنیا کو دگنا زیادہ تانبے، چار گنا زیادہ نکل، دو گنا زیادہ سٹیل اور دو گنا زیادہ لوہے کی ضرورت ہو گی جیسا کہ پچھلے 30 برسوں میں تھی‘۔