Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’زراعت میں صنفی عدم توازن کے خاتمے سے عالمی معیشت ایک کھرب ڈالر بڑھ سکتی ہے‘

کورونا وائرس کی وبا کے دوران زراعت میں 22 فیصد خواتین کی نوکریاں چلی گئیں (فوٹو: اے ایف پی)
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زراعت اور فُوڈ سسٹم میں خواتین کی مردوں کے مقابلے میں کمائی کم ہے اور اس صنفی عدم توازن کو ختم کر کے عالمی معیشت میں ایک کھرب ڈالر کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کی 2011 میں کی گئی تحقیق کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شعبہ زراعت میں خواتین کی تعداد اب بھی محدود ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس شعبے میں خواتین کا کام مردوں سے زیادہ مشکل ہے۔ سب صحارا افریقہ کے بہت سے ممالک میں خواتین کی زراعت کے شعبے میں ورک فورس آدھے سے زیادہ ہے، جبکہ جنوب مشرقی ایشیا میں آدھی سے کم ہے۔
اگر زرعی زمین، کھاد، بیج، فنانسنگ اور ٹیکنالوجی کی بات کی جائے تو خواتین بہت پیچھے ہیں، جبکہ ان کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔
ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق ’40 فیصد سے زیادہ ممالک میں مردوں کے پاس زمین کے مالکانہ حقوق خواتین کے مقابلے میں دو گنا سے بھی زیادہ ہیں۔‘
کورونا وائرس کی وبا کے دوران زراعت میں 22 فیصد خواتین کی نوکریاں چلی گئیں، جبکہ صرف دو فیصد مردوں کو نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ خواتین کی کمائی بھی مردوں کی نسبت 18.4 فیصد کم ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ خواتین اور مردوں کے درمیان پائے جانے والے اس عدم توازن کو ختم کیا جائے تو عالمی جی ڈی پی میں ایک فیصد یعنی ایک کھرب ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
اس طرح سے فوڈ سکیورٹی کے شکار افراد کی تعداد بھی 45 فیصد کم ہو سکتی ہے۔

شیئر: