عمران خان نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ انہوں نے ڈینس للی کو دیکھ کر فاسٹ بولر بننے کا فیصلہ کیا تھا۔ (فوٹو: وکی پیڈیا)
عمران خان کی ٹیسٹ کرکٹ میں میڈیم پیسر کی حیثیت سے آمد ہوئی لیکن بعد میں وہ جینوین فاسٹ بولر کے روپ میں سامنے آئے۔
اس جوہری تبدیلی کا محرک عظیم آسٹریلیوی کھلاڑی ڈینس للی بنے۔ 2010 میں ’کرک انفو‘ سے انٹرویو میں عمران خان نے بتایا تھا کہ انہوں نے 1972میں انگلینڈ میں للی کی بولنگ دیکھ کر فاسٹ بولر بننے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے پہلی دفعہ کسی جینوین فاسٹ بولر کو بولنگ کرتے دیکھا تھا کیونکہ پاکستان میں اس وقت تک ایسا کوئی بولر نہیں ابھرا تھا۔ عمران خان کے خیال میں بلے باز حاوی ہونے کی کوشش کرے تو تیز رفتار بولنگ سے ہی آپ اس سے بدلہ لے سکتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ فاسٹ بولر کے طور پر عمران خان نے شائقینِ کرکٹ کے ذہنوں پر پہلا نقش ڈینس للی کے سامنے جمایا اور ان سے داد بھی حاصل کی۔
یہ جنوری 1977 کی بات ہے۔ عمران خان نے سڈنی میں آسٹریلیا کے خلاف 12 وکٹیں حاصل کیں اور’سڈنی کے ہیرو‘ کہلائے۔
انہوں نے آگے چل کر کرکٹ میں جو بلند رتبہ حاصل کیا یہ ٹیسٹ اس کی بنیاد بنا۔ اس سے پہلے وہ ٹیسٹ کرکٹ میں غیرمعمولی کھیل پیش کرنے میں ناکام رہے تھے۔
1971 میں ٹیسٹ کیریئر کے آغاز کے بعد نو میچوں میں ان کی وکٹوں کی تعداد 43.52 کی اوسط سے 25 تھی۔
سڈنی ٹیسٹ عمران خان کے لیے ہی نہیں پاکستان ٹیم کے لیے بھی رفعت کا پیام لایا جس نے پہلی دفعہ آسٹریلیا میں ٹیسٹ میچ میں فتح حاصل کی۔ اس کے بعد ٹیسٹ کرکٹ میں کامیابیوں کے سست سفر نے بھی سڈنی کے بعد ہی رفتار پکڑی۔
ڈینس للی عظیم بولر تھے۔ اس میں کلام نہیں۔ عمران خان کے ساتھ ان کے تعلقات کا جائزہ لینے سے کُھلتا ہے کہ وہ بڑے انسان بھی ہیں۔
انہوں نے اپنی کتاب ’مائی لائف ان کرکٹ‘ میں بڑی کشادہ دلی سے سڈنی میں عمران خان کے کھیل کی تحسین کی ہے۔ انہیں قدرتی اتھلیٹ، گہری سوجھ بوجھ کا حامل ایسا لڑاکا بولر قرار دیا ہے جو ہار نہیں مانتا۔
1975میں انگلینڈ میں للی نے عمران خان کو کھیلتے دیکھا تو انہیں وہ ایک معمولی میڈیم پیسر لگے۔ بولر سے زیادہ بہتر بلے باز، لیکن اب اپنے دیس میں وہ کسی اور ہی عمران کو دیکھ رہے تھے۔
للی نے کتاب میں آسٹریلوی کپتان گریگ چیپل کی رائے نقل کی ہے جس کے مطابق انہوں نے حریف ٹیم کے بولروں کی کارکردگی کے جو بہترین مظاہرے دیکھے ان میں عمران خان کی سڈنی ٹیسٹ میں بولنگ بھی شامل تھی۔
آسٹریلیا میں عمران خان کے سر پر کامیابی کا جو ہما بیٹھا اس میں للی کا اہم کردار تھا۔
1977 میں آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے پہلے ٹیسٹ میں ایڈیلیڈ کی پچ، فاسٹ بولروں کے لیے مددگار نہیں تھی۔ جیف تھامسن کے ان فٹ ہونے پر للی کے کندھوں پر مزید بوجھ بڑھ گیا لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور دوسری اننگز میں آٹھ گیندوں کے 47.7 اوورز میں پانچ کھلاڑی آؤٹ کیے۔
عمران خان ان کے عزمِ صمیم سے متاثر ہوئے۔ وہ انہیں ایسا بولر قرار دیتے ہیں جو ہمیشہ حریفوں پر حملہ آور ہوتا اور انہیں مختلف طریقوں سے آؤٹ کرنے کے لیے ذہن لڑاتا۔
میلبورن میں سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میں پچ بولروں کے لیے بڑی ساز گار تھی۔ اس لیے عمران پہلے ٹیسٹ میں ناکامی کا ازالہ کرنے کے لیے پُرعزم تھے لیکن آسٹریلیا نے میچ کی پہلی اننگز میں 517 رنز بنا ڈالے اور ان کے حصے میں کوئی وکٹ نہیں آئی۔
مایوسی کی اس گھڑی میں ان کی دل جوئی اور رہنمائی کسی اور نے نہیں للی نے کی، جس پر عمران کو حیرانی بھی ہوئی۔ للی نے جان لیا تھا کہ عمران خان سے کہاں غلطی ہوئی۔ بات اصل میں یہ تھی کہ گزشتہ ٹیسٹ کے برعکس میلبورن میں فاسٹ بولنگ کے لیے موافق وکٹ دیکھ کر جہاں گیند سوئنگ ہو رہا تھا عمران پُرجوش ہو گئے اور بولنگ میں ضرورت سے کہیں زیادہ زور لگا بیٹھے۔ ان کے لیے یہ بات حوصلہ افزائی کا باعث تھی کہ للی نے ان کے مسئلے کو نہ صرف سمجھا بلکہ اس پر ان سے بات چیت کرنے کے لیے آئے۔ عمران کے بقول ’اس کے بعد ہم اچھے دوست بن گئے اور میری بولنگ میں بھی بہتری آ گئی۔‘
عمران خان نے میلبورن ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں پانچ کھلاڑی آؤٹ کیے (کیریئر میں ایک اننگز میں پہلی دفعہ پانچ وکٹیں) اور پھر سڈنی میں تاریخ رقم کر دی (فضل محمود کے بعد 10 وکٹیں لینے والے دوسرے پاکستانی بولر بنے۔)
ڈینس للی کی ایڈیلیڈ ٹیسٹ میں دوڑ دھوپ کا احوال آپ اوپر پڑھ چکے۔ عمران 1973میں سڈنی ٹیسٹ کی مثال بھی دیتے ہیں جس میں پاکستان کی پوزیشن مضبوط تھی لیکن للی ان فٹ ہونے کے باوجود بولنگ کرنے پر بضد رہے اور ناتجربہ کار میکس واکر کے ساتھ مل کر آسٹریلیا کو فتح دلا دی۔
نامساعد حالات میں ہتیھار نہ ڈالنے کی یہی وہ صفت ہے جس نے عمران خان کی کتاب میں للی کو نمبر ون بولر بنایا۔ عمران خان نے آپ بیتی ’ آل راؤنڈ ویو‘ میں اپنے پسندیدہ فاسٹ بولروں کی فہرست میں للی کو سب سے اونچا درجہ دیا ہے۔
للی نے آپ بیتی ’Menace‘ میں عمران خان کے پورے کیریئر کے تناظر میں رائے دی۔
انہوں نے پسندیدہ بولروں اور آل راؤنڈروں کے زمرے میں عمران خان کو جگہ دی۔ عمران خان کو بہت فٹ اور شیر دل فاسٹ بولر قرار دیا ہے جو نہ صرف تیر رفتار بولنگ کر سکتا ہے بلکہ لمبے سپیل بھی۔
للی کی دانست میں عمران کی جارحانہ اپروچ سے ٹیسٹ اور ون ڈے میں پاکستان ایک مضبوط ٹیم بن گئی۔ ان کے نزدیک عمران کی کرکٹ میں کامیابی اور پاکستان کا دنیا میں ایک طاقتور قوم کے طور پر ظہور اتفاق نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کسی بھی وکٹ پر اور تقریباً ہر قسم کے حالات میں ایک خطرناک بولر تھے۔
1980 میں آسٹریلیا کی ٹیم پاکستان آئی۔ فیصل آباد ٹیسٹ کی مردہ پچ پر دونوں ٹیموں کے بلے بازوں نے رنز کا انبار لگا دیا۔ للی نے زچ ہو کر کہا کہ اس وکٹ پر ان کی قبر بنا دی جائے۔
’مائی لائف ان کرکٹ‘ میں للی نے لکھا کہ عمران نے انہیں بتایا کہ ’پاکستان نے آسٹریلوی فاسٹ بولرز کی وجہ سے سیریز میں تیز وکٹیں بنانے سے گریز کیا۔
للی کے مطابق اس حکمت عملی پر عمران خان مایوس تھے کیونکہ مہمان ٹیم کے بولروں کو بے اثر کرنے کے پیچھے جو سوچ کارفرما تھی وہ بحیثیت بولر عمران خان کے لیے بھی سودمند نہیں تھی۔
للی اور عمران خان کے آپس کے تعلق کا روشن پہلو یہ ہے کہ دونوں نے ایک دوسرے کی عظمت کے اعتراف میں بخیلی سے کام نہیں لیا۔
ان میں یہ قدرِ مشترک بھی ہے کہ دونوں ان فٹ ہونے کی وجہ سے کرکٹ سے کنارہ کش ہوئے لیکن پھر بڑی شان سے ان کی واپسی ہوئی۔
آسٹریلوی سرزمین پر عمران خان کو زندگی کی دو بڑی خوشیاں نصیب ہوئیں۔ کرکٹر کی حیثیت سے ان کی عظمت کے جس سفر کا 1977 میں آسٹریلیا سے آغاز ہوا، اس کا شاندار اختتام بھی 25 مارچ 1992 کو یہیں پر ہوتا ہے جب پاکستان نے عمران خان کی قیادت میں میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں انگلینڈ کو شکست دے کر ورلڈ کپ اپنے نام کیا۔