عبدالقادر: وہ ’مشرقی جادوگر‘ انگلش بلے باز جس کا سحر نہ توڑ سکے
عبدالقادر: وہ ’مشرقی جادوگر‘ انگلش بلے باز جس کا سحر نہ توڑ سکے
جمعہ 9 دسمبر 2022 5:42
محمود الحسن -لاہور
سنہ 1982 میں عبدالقادر کو دورۂ انگلینڈ کے لیے عمران خان کے اصرار پر ہی منتخب کیا گیا۔ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)
عظیم لیگ سپنر عبدالقادر جنہیں حال ہی میں آئی سی سی ہال آف فیم میں شامل کیا گیا ہے، ان کی یاد انگلینڈ کے دورۂ پاکستان کی وجہ سے آئی کہ اس ٹیم کے بلے بازوں کو انہوں نےبارہا تگنی کا ناچ نچایا اور اب یہ حال ہے کہ وہ پاکستان بولروں کی پٹائی کر کے 112سال پرانا ریکارڈ توڑ رہے ہیں۔
گوروں نے عبدالقادر کی عظمت کے اعتراف میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ کرکٹرز ہوں، مصنف ہوں، صحافی ہوں یا کمنٹیٹرز سبھی نے انہیں جی کھول کر سراہا۔
عبدالقادر نے اپنے گھر کی پہلی منزل پر اپنا دفتر بنا رکھا تھا جہاں ان سے ملنے کے واسطے لوگ آتے۔ ایک الماری میں انہوں نے معروف برطانوی تاریخ دان ڈیوڈ فریتھ کی کتاب The slow men سجا رکھی تھی۔
سنہ 2010 میں ایکسپریس اخبار کے لیے ان کا انٹرویو کرنے گیا تو انہوں نے مجھے بڑے فخر سے وہ کتاب دکھائی اور بتایا ’یہ سپن بولروں کے بارے میں ایک بڑے رائٹر کی مستند کتاب ہے جس کے سرورق پر میری تصویر ہے، کیسے کیسے سپنر مجھ سے پہلے آئے لیکن میرے رب کا کرم ہے جو مجھے اتنی عزت دی۔ جب یہ کتاب شائع ہوئی تو اس وقت ٹیسٹ میں میری سو وکٹیں بھی نہیں تھیں۔‘
ڈیوڈ فریتھ نے کتاب میں عبدالقادر کی بڑی تعریف کی ہے اور انہیں لیگ سپن بولنگ کا مشعل بردار قرار دیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی لکھا کہ 1977 میں پاکستان کا دورہ کرنے والی ٹیم ’باؤ‘ (پاکستانی کھلاڑی عبدالقادر کو پیار سے’باؤ‘ کہتے تھے) کی پاور نہیں بھولی ہو گی جس نے حیدر آباد ٹیسٹ میں اپنی بولنگ سے اسے حیران و پریشان کیے رکھا۔ فریتھ کے بقول، 1982 میں عبدالقادر نے اپنی بولنگ سے انگلینڈ کو مسحور کر دیا۔
انگلینڈ کی ٹیم سنہ 1984 میں باب ولس کی کپتانی میں پاکستان آئی جنہوں نے بعد میں اپنی کتاب The captain's diary: England in Fiji, New Zealand, and Pakistan میں لکھا کہ اس دورے میں انگلینڈ کے کھلاڑیوں کے ذہنوں پر سب سے زیادہ عبدالقادر چھائے رہے۔ اس کتاب کے سرورق پر چار تصویروں میں سے ایک تصویر عبد القادر کی ہے۔
ممتاز کرکٹ امپائر ڈکی برڈ نے اپنی کتاب ’ایٹی ناٹ آؤٹ‘ میں عبدالقادر کو عظیم ترین لیگ سپنر قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں جہاں تک بولنگ میں ویری ایشن کا تعلق ہے قادر کے برابر کوئی نہیں۔ وہ نہایت عمدہ لائن و لینتھ اور ماہرانہ کنٹرول کے ساتھ لیگ سپن، گگی، ٹاپ سپن اور فلپر کر سکتا تھا۔
عبدالقادر کے بارے میں تحسینی کلمات اور بھی ہیں، یہاں ہم نے قارئین کےسامنے چند نمونے رکھے ہیں تاکہ وہ ان کی عظمت کا اندازہ کر سکیں۔
اب ہم ٹیسٹ کرکٹ میں انگلینڈ کے ساتھ مقابلوں میں عبدالقادر کی عمدہ پرفارمنس کے تذکرے کی طرف آتے ہیں جس کی پہلی مثال انہوں نے سنہ 1977 میں حیدرآباد میں اپنے دوسرے ٹیسٹ میں قائم کی۔
انہوں نے پہلی اننگز میں 44 رنز دے کر چھ کھلاڑی آؤٹ کیے۔ یہ ایک اننگز میں انگلینڈ کے خلاف بہترین بولنگ کا نیا ریکارڈ تھا (فضل محمود نے 1954 میں اوول ٹیسٹ میں 46 رنز دے کر چھ کھلاڑی آوٹ کیے تھے)۔
حیدر آباد ٹیسٹ تو عبدالقادر کی ابتدا تھی۔ ان کی انتہا یہ تھی کہ سنہ 1987 میں قذافی سٹیڈیم میں پہلی اننگز میں انہوں نے 56 رنز کے عوض انگلینڈ کے نو بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔
یہ ایک اننگز میں کسی پاکستانی بولر کی بہترین بولنگ کا وہ ریکارڈ ہے جو آج 35 برس گزرنے پر بھی قائم ہے۔
اس ٹیسٹ میں مجموعی طور پر عبدالقادر نے 13 بلے باز آؤٹ کیے۔ گراہم گوچ جنہوں نے اس ٹیسٹ میں قادر کا سامنا کیا ان کے خیال میں وہ شین وارن سے عمدہ بولر تھے۔
فیصل آباد ٹیسٹ (انگلینڈ کے کپتان مائیک گیٹنگ اور امپائر شکور رانا کا مشہور زمانہ جھگڑا اسی ٹیسٹ میں ہوا) میں سات اور کراچی ٹیسٹ میں انہوں نے 10 کھلاڑی آؤٹ کیے۔ تین میچوں میں ان کی وکٹوں کا تعداد 30 رہی۔
سنہ 1984 میں پاکستان نے پہلی دفعہ انگلینڈ سے ٹیسٹ سیریز جیتی جس میں صرف کراچی ٹیسٹ ہی فیصلہ کن رہا۔
انگلینڈ کی ٹیم پہلی مرتبہ پاکستان میں ٹیسٹ میچ ہاری۔ اس یادگار کامیابی میں بھی عبدالقادر نے کلیدی کردار ادا کیا۔ آٹھ وکٹیں لے کر مین آف دی میچ ٹھہرے۔
انگلینڈ کے کپتان باب ولس کی جس کتاب کا اوپر ہم نے ذکر ہے اس میں کراچی ٹیسٹ میچ پر باب کا عنوان ہی بہت کچھ کہے دیتا ہے: Game, set and Match to Abdul Qadir
لاہور میں تیسرے ٹیسٹ میں عبدالقادر نے دونوں اننگز میں پانچ پانچ وکٹیں حاصل کیں۔
اب تک ہم نے پاکستان میں عبدالقادر کی جادوگری کا ذکر کیا ہے۔ اب تھوڑا ذکر انگلینڈ کی سرزمین پر ان کی پرفارمنس کا ہو جائے۔
عمران خان کا کپتان بننا عبدالقادر کے کرکٹ کیریئر میں ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ سنہ 1982 میں انہیں دورۂ انگلینڈ کے لیے عمران خان کے اصرار پر ہی منتخب کیا گیا۔ وہاں ان کی بڑی پذیرائی ہوئی۔
انگلینڈ میں پاکستان نے ٹیسٹ میں اولین کامیابی تو سنہ 1954 میں اپنے پہلے دورے میں حاصل کر لی تھی لیکن اگلے پانچ دوروں میں وہ کوئی ٹیسٹ میچ نہیں جیت سکا۔
عمران خان کی کپتانی میں لارڈز ٹیسٹ میں پاکستان نے 28 سال بعد میزبان ٹیم کو اس کی سرزمین پر زیر کیا۔ اس جیت میں جن کھلاڑیوں کا اہم کردار رہا ان میں عبدالقادر بھی شامل تھے جنہوں نے پہلی اننگز میں سب سے زیادہ چار وکٹیں لے کر حریف ٹیم کو فالو آن پر مجبور کیا۔
دوسری اننگز میں بھی دو وکٹیں ان کے نام رہیں۔ وزڈن نے ان کی کارکردگی کو جیت کے لیے کارآمد کنٹری بیوشن قرار دیا۔ وزڈن (1983) میں ان کی دو تصاویر شائع ہوئیں جن میں سے ایک تصویر کے اوپر لکھا ہے: مشرقی ساحری (Eastern magic)
وزڈن نے عبد القادر کو ایسا جینوین لیگ بریک اور گگلی بولر قرار دیا جن کی وجہ سے لیگ سپن بولنگ کے دم توڑتے ہوئے آرٹ کا احیا ہوا ہے۔
انگلنیڈ میں عبدالقادر نے 12 فرسٹ کلاس میچوں میں 20.82 کی اوسط سے پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ 57 وکٹیں حاصل کیں۔
عمران خان،’آل راؤنڈ ویو‘ میں لکھتے ہیں:
’انگلینڈ میں ذرائع ابلاغ عامہ کو قادر کی بولنگ نے اپنا گرویدہ کرلیا تھا اور انہوں نے اسے عظیم سپنر قرار دیا تھا۔ اس نے وہاں نہایت عمدہ گیندیں کی تھیں اور یہ اس کی بدقسمتی تھی کہ وہ زیادہ وکٹیں حاصل نہیں کر سکا۔ انگریز بیٹسیمنوں کی طرح انگریز امپائر بھی اکثر اوقات اس کی گگلی اور فلپر کو سمجھ نہ پاتے اور اپنے کھلاڑیوں کو ایل بی ڈبلیو دینے میں پس وپیش سے کام لیتے۔ عظیم برطانوی کمنٹیٹر اور کرکٹ رائٹر جان آرلٹ نے کہا تھا کہ صرف عبدالقادر کو گیندیں کرتے دیکھ کر ان کو پورے موسم گرما کا لطف حاصل ہو گیا تھا۔‘ (ترجمہ: گل حمید بھٹی)
سنہ 1987 میں انگلینڈ کے خلاف سیریز میں قادر کی تین ٹیسٹ میچوں میں کارکردگی بڑی خراب تھی (سیریز کے پہلے ٹیسٹ میں وہ شریک نہیں ہوئے تھے) اس لیے آخری ٹیسٹ میں سینئیر کھلاڑی انہیں ٹیم میں شامل کرنے کے حق میں نہیں تھے لیکن کپتان عمران خان کو ان پر اب بھی بڑا بھروسہ تھا۔ عبدالقادر نے کپتان کے بے پناہ اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔
اوول میں پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتےہوئے 708 رنز بنا ڈالے۔ جاوید میانداد نے 260 رنز بنائے۔ عمران خان اور سلیم ملک نے بھی سینچریاں سکور کیں۔
انگلینڈ نے بیٹنگ شروع کی تو عبدالقادر نے بلے بازوں کے قدم اکھاڑ دیےاور سات کھلاڑی آؤٹ کیے۔ حریف ٹیم کو فالو آن کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری اننگز میں اس کی چار وکٹیں گریں جن میں سے تین عبدالقادر کے حصے میں آئیں۔
عمران خان کے بقول ’قادر نے ثابت کر دیا کہ اسے یوں ہی جدید کرکٹ کے بہترین سپن بولروں میں شمار نہیں کیا جاتا۔ ‘
عبد القادر نے انگلینڈ کے خلاف 16 ٹیسٹ میچوں میں 24.98 کی اوسط سے 82 وکٹیں حاصل کیں۔
عبدالقادر نے ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی جادوگری کی داد اپنوں پرایوں سے حاصل کر لی، لیکن ون ڈے کرکٹ میں خود کو ثابت کرنے کا مرحلہ ابھی باقی تھا۔ اور یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔
اس فارمیٹ میں لیگ سپنر کو کھلانے کا تصور محال تھا۔ ان کے سب سے بڑے پشتی بان عمران خان بھی اس معاملے میں تذبذب کا شکار تھے۔ عبدالقادر نے کپتان سے بہ اصرار کہا کہ انہیں ہنر آزمانے کا موقع دیا جائے۔
سنہ 1983 کے ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کے خلاف عبدالقادر میدان میں اترے۔ کیریئر کے پہلے ون ڈے میچ میں 12 اوورز کیے جن میں سے چار میڈن تھے اور 21 رنز دے کر چار وکٹیں حاصل کیں۔ مین آف دی میچ ٹھہرے۔
سری لنکا کے خلاف تیسرے میچ میں پانچ کھلاڑی آوٹ کیے۔عمران خان کے بقول ’عبد القادر ورلڈ کپ میں ہمارے لیے کامرانیوں کا نشان بن گیا۔‘
سنہ 1983 کے ورلڈ کپ میں جس شان سے ون ڈے کیریئر کا آغاز کیا اس کا نقطہ عروج 1987 کا ورلڈ کپ تھا جس میں انہوں نے بلے بازوں کو خاصا پریشان کیے رکھا۔ انگلینڈ کے ساتھ پہلے میچ میں چار وکٹیں لے کر مین آف دی میچ قرار پائے۔ اس کے خلاف دوسرے میچ میں تین کھلاڑی ان کا شکار بنے۔
عبدالقادر نے لیگ سپن بولنگ کے آرٹ کو نئی زندگی بخشی اور ثابت کیا کہ لیگ سپنر میچ جتوانے میں مرکزی ادا کرسکتا ہے۔ ٹیمیں جیت کے لیے اس پر تکیہ کر سکتی ہیں۔اس کی اپروچ جارحانہ ہو سکتی ہے۔ ٹیسٹ ہی نہیں ون ڈے میں بھی وہ بلے بازوں کو مشکل میں ڈال سکتا ہے۔
باب ولس نے کپتان بننے کے بعد جب یہ کہہ کر لیگ سپن بولنگ کی اہمیت گھٹائی کہ اس سے ٹیسٹ میچ نہیں جیتے جا سکتے تو ان کا یہ کہا چند ہی ہفتوں میں عبدالقادر نے عمدہ بولنگ سے باطل ثابت کر دیا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ سنہ 1982 میں عبدالقادر نے آسٹریلیا کے خلاف فیصل آباد ٹیسٹ میں 11 وکٹیں لے کر قومی ٹیم کو ایک اننگز اور تین رنز سے جتوا دیا۔ اس سے پہلے کراچی ٹیسٹ میں پاکستان نے نو وکٹوں سے کامیابی حاصل کی تو اس میں عبدالقادر نے سات کھلاڑی آوٹ کیے اور مین آف دی میچ کے حقدار قرار پائے۔
لاہور میں آخری ٹیسٹ میں پاکستان نے ایک مرتبہ پھر مہمان ٹیم کو نو وکٹوں سے شکست دی۔ عبدالقادر نے پانچ وکٹیں لیں۔ یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان ٹیم نے ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کیا۔
آسٹریلیا کی اس ہزیمت میں سب سے بڑھ کر کردار عبدالقادر کا تھا، اس لیے انہیں مین آف دی سیریز قرار دیا گیا۔