Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلاول بھٹو زرداری کا دورۂ انڈیا، ’ہاتھ ملائیں گے لیکن زیادہ اُمیدیں نہیں‘

بلاول بھٹو زرادری اور ایس جے شنکر جولائی 2022 میں تاشقند میں ایس سی او کی میٹنگ میں شریک تھے (فائل فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری جمعرات کو انڈیا کے شہر گوا میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) میں شرکت کے لیے انڈیا روانہ ہو رہے ہیں۔ 
یہ کسی بھی پاکستانی وزیرخارجہ کا گزشتہ 12 برس میں انڈیا کا پہلا دورہ ہے۔ اس سے قبل 2011 میں سابق وزیرخارجہ حنا ربانی کھر انڈیا گئی تھیں۔
بعدازاں سابق وزیراعظم نواز شریف بھی 26 مئی 2014ء کو ’امن کا پیغام لے کر‘ انڈیا گئے تھے۔ اس کے بعد 25 دسمبر 2015 کو نواز شریف کی سالگرہ کے دن انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے افغانستان سے واپسی پر پاکستان کا ’سرپرائز دورہ‘ کیا تھا۔ یہ بظاہر ایک نجی نوعیت کا دورہ تھا لیکن اس میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے پر بات چیت ہوئی تھی۔ 
انڈیا اور پاکستان کے درمیان 5 اگست 2019 کے بعد سے تجارتی اور سفارتی تعلقات سردمہری کا شکار ہیں جب انڈیا کی حکومت نے اپنے زیرانتظام جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر کے اسے یونین ٹیریٹریز میں بدل دیا تھا۔ 
پاکستان نے اس اقدام کو یکطرفہ فیصلہ قرار دیتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور کشمیریوں کی حق رائے شماری کے اپنے موقف کو دہرایا تھا۔ 
پانچ اگست 2019 کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیاسی تعلقات میں تناؤ دیکھنے میں آتا رہا اور سابق وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی فورمز پر انڈیا کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ 
اس دوران انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں پلوامہ حملہ، انڈیا کی جانب سے پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک اور انڈین پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن کی پاکستانی حدود میں گرفتاری اور پھر رہائی جیسے واقعات پر دونوں ممالک کے درمیان گرم سرد بیانات کا تبادلہ جاری رہا۔ 
اب پاکستان میں قائم اتحادی حکومت کے دور میں پاکستان کے اعلیٰ سطحی وفد کا انڈیا جانا ایک بڑی پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ 
واضح رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہی اس وقت انڈیا کے پاس ہے اور بلاول بھٹو زرداری ایس سی او کے موجودہ سربراہ انڈین وزیرخارجہ ایس جے شنکر کی دعوت پر کل (جمعرات) کو انڈیا روانہ ہوں گے۔ ایس جے شنکر نے رواں برس جنوری میں پاکستان کے وزیرخارجہ کو ایس سی او کے وزرائے خارجہ اجلاس میں میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ 
شنگھائی تعاون تنظیم میں چین، انڈیا، روس، پاکستان سمیت چار وسطی ایشیائی ریاستیں شامل ہیں۔  
حریف سمجھے جانے والے دونوں ایشیائی ممالک کے درمیان تعلقات کے اتار چڑھاؤ پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایس سی او کے اس اجلاس سے بہت زیادہ امیدیں نہیں باندھی جا سکتیں۔ ان کے بقول کسی بڑی پیش رفت کے لیے مزید کچھ ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ 
سابق سفیر اور تجزیہ کار عبدالباسط نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ انڈیا کا دورہ نہیں ہے بلکہ یہ ایس سی اور کی میٹنگ ہے۔ میرا نہیں خیال اس سے کچھ برف پگھلے گی۔ یہ باتیں اب پرانی ہو چکی ہیں۔ جو حالات ہیں ان میں بھلا کیا برف پگھلے گی۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’اگر دونوں ممالک کے باہمی تعلقات پر جمی برف پگھلانی ہے تو انڈیا کو پاکستان کو اکاموڈیٹ کرنا ہو گا۔ پاکستان کو اب محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ وہ ماضی کی طرح کسی جال میں نہ پھنسے۔‘ 

پاکستان اور انڈیا کے درمیان کئی دہائیوں سے ریاست جموں کشمیر پر تنازع چلا آ رہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

کیا ایس سی او کے اس اجلاس کی سائیڈ لائن پر پاکستانی اور انڈین وزیرخارجہ کے درمیان ملاقات اور اہم متنازع معاملات پر بات چیت کا امکان ہے؟ اس پر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ ’ملاقات ممکن نہیں ہے۔ ہاں، وہ ہاتھ ضرور ملائیں گے لیکن اگر تفصیلی ملاقات ہوئی تو یہ پاکستان کی بدقسمتی ہو گی۔ جب تک انڈیا کشمیر سے جڑے معاملات پر لچک نہیں دکھاتا اور اچھی فضا قائم نہیں کرتا، اس وقت تک اس قسم کی ملاقاتیں بے سود ہوں گی۔‘ 
انہوں نے مزید کہا کہ ’انڈیا کو پہل کرتے ہوئے اعتماد سازی کے کچھ اقدامات اٹھانا ہوں گے جن میں ریاست جموں کشمیر کے دونوں اطراف سیاحت اور ریاستی شہریوں کی آزادانہ آمدورفت کے 2005 کے اور تجارت کے 2007 کے معاہدے کی بحالی شامل ہے۔‘ 
’اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کی حریت لیڈر شپ اور دیگر قیدیوں کی رہائی، شہری علاقوں سے افواج کے انخلاء سمیت انڈیا کے زیرانتظام کشمیر سے کالے قوانین کا خاتمہ کرنا ہو گا۔‘ 
کیا پاکستان سفارتی اور سیاسی سطح پر اپنا وزن ثابت کر سکے گا کہ انڈیا مذکورہ مطالبات مان لے؟ اس سوال کے جواب میں عبدالباسط کا کہنا تھا کہ ’اگر پاکستان کا اس وقت اتنا بااثر نہیں تو وہ ویٹ (انتظار) کر لے۔ اس ملاقات سے کشمیر کا تنازع حل تو نہیں ہو جانا۔‘ 
تجزیہ کار مشرف زیدی سمجھتے ہیں کہ انڈیا ایس سی او کانفرنس میں پاکستان کو مدعو کر کے اپنی بالادستی ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ 
مشرف زیدی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیرخارجہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی میٹنگ میں جا رہے ہیں۔ اس دعوت سے انڈیا یہی باور کرانا چاہتا ہے کہ پاکستان نے ان کی سب شرائط مان لی ہیں۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’جہاں تک ایس سی او کا تعلق ہے تو پاکستان کو اس میں ضرور شرکت کرنی چاہیے۔ ایس سی او کا متنازع معاملات خاص طور پر کشمیر سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔‘

شنگھائی تعاون تنظیم کے موجودہ سربراہ انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’انڈیا اس پاکستانی وزیرخارجہ کے دورے کو اس تناظر میں دکھانا چاہتا ہے کہ پاکستان ایک مانگنے والا ملک ہے۔ دیکھیں اس ملک وزیرخارجہ یہاں آیا ہے۔ اب اس پر ہمیں پاکستان کا موقف دیکھنا ہو گا۔‘ 
دوسری جانب تجزیہ کار عبدالباسط پاکستان انڈیا کے تعلقات میں ’برف پگھلنے‘ کے امکان کو یہ کہتے ہوئے مسترد کرتے ہیں کہ ’فی الوقت پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات سنجیدہ ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ اگلے برس انڈیا میں الیکشن ہونے ہیں۔ ان الیکشن میں پاکستان مخالف کارڈ کا استعمال ہو گا۔‘ 

شیئر: