وفاقی حکومت نے آڈیو لیکس کی انکوائری کرنے والے جوڈیشل کمیشن کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ کے سربراہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال سمیت دیگر ججز کو بینچ سے علیحدہ کرنے کی استدعا کر دی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے ان کے متعلقہ بینچ سے علیحدہ ہونے کی استدعا کر دی ہے۔
منگل کو وفاقی حکومت کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ آڈیو لیکس کی انکوائری کرنے والے جوڈیشل کمیشن کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے نیا عدالتی بینچ تشکیل دیا جائے۔
مزید پڑھیں
-
کمیشن آڈیو ریکارڈ اور لیک کرنے والوں کی نشاندہی کرے: عمران خانNode ID: 766116
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر آڈیو لیکس کا مقدمہ نہ سنیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ 26 مئی کو سماعت کے دوران چیف جسٹس پر اٹھائے گئے اعتراض کو پذیرائی نہیں دی گئی اور عدالت کے عبوری حکمنامے میں کمیشن کے نوٹیفکیشن کو معطل کر دیا گیا۔
وفاقی حکومت کی درخواست کے مطابق کمیشن کے ٹی او آر میں شامل ایک آڈیو چیف جسٹس کی خوش دامن سے متعلق ہے، اور عدالتی فیصلے اور ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ یہ تقاضا کرتا ہے کہ جج اپنے رشتہ دار کا مقدمہ نہیں سن سکتا۔
حکومت نے ماضی کے عدالتی فیصلوں کا بھی حوالہ دیا ہے۔
درخواست کے مطابق ماضی میں ارسلان افتخار کیس میں چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اعتراض پر خود کو بینچ سے الگ کر لیا تھا۔
وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی اس مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ مقدمہ اُن سے بھی متعلق ہے۔

پانچ رکنی لارجر بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس شاہد وحید اور جسٹس اظہر رضوی شامل تھے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز ہی پنجاب میں انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا تھا کہ جمعرات کو جوڈیشل کمیشن والا کیس مقرر ہے، اٹارنی جنرل اس بارے میں بھی حکومت سے ہدایات لے لیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس میں ہمارا حکم نامہ پڑھا ہو گا۔ ذہن میں رکھیں کہ عدالت نے کمیشن کالعدم قرار نہیں دیا، عدالت نے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے۔‘
چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’خفیہ ملاقاتوں سے معاملات نہیں چل سکتے۔ یہ تاریخی ایکسیڈنٹ ہے کہ چیف جسٹس صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ ہم نے میمو گیٹ، ایبٹ آباد کمیشن اور شہزاد سلیم قتل کے کمیشنز کا نوٹیفکیشن دکھایا۔ تمام جوڈیشل کمیشنز چیف جسٹس کی مرضی سے تشکیل دیے جاتے ہیں۔ کسی چیز پر تحقیقات کرانی ہیں تو باقاعدہ طریقہ کار سے آئیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں خود پر مشتمل کمیشن تشکیل نہیں دوں گا۔ کسی اور جج سے بھی تحقیقات کرائی جا سکتی ہیں۔‘
قبل ازیں جمعہ کو چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ نے آڈیو لیکس کے جوڈیشل انکوائری کمیشن کو کام سے روکنے کا حکم امتناعی جاری کر دیا تھا۔ انکوائری کمیشن کے خلاف عمران خان، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری، ریاض حنیف راہی اور مقتدر شبیر کی جانب سے درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
ان درخواستوں میں آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کی تشکیل کے نوٹی فیکیشن کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ’یہ طے شدہ اصول ہے کہ کسی بھی انکوائری کمیشن میں کسی جج کی شمولیت کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان سے اجازت لینا ضروری ہے۔‘
حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ ’بادی النظر میں وفاقی حکومت نے یک طرفہ اقدام سے آئینی اصول کی خلاف ورزی کی ہے۔‘
