Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شوکت یوسفزئی کی مظاہرین سے رابطوں کی تردید

مظاہروں کے بعد پولیس نے 500 افراد کو گرفتار کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
صوبہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی ترجمان شوکت یوسفزئی نے پولیس کی ان رپورٹس کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ 9 اور 10 مئی کے پُرتشدد واقعات میں سابق اراکین صوبائی اسمبلی اور پارٹی کے رہنما مشتعل مظاہرین کے ساتھ رابطے میں تھے۔
بدھ کو پولیس نے کہا تھا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے پولیس و سکیورٹی ایجنسیوں کی مدد سے جیو فینسنگ سمیت مختلف رپورٹس مرتب کی ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ترجمان شوکت یوسفزئی نے کہا کہ ’ہم نے کسی کو جلاؤ گھیراؤ کی ہدایت نہیں دی۔ ہم تو اپنے کارکنوں کو پُرامن رہنے کی تلقین کر رہے تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ مظاہرین میں پی ڈی ایم کے کارکن گھس آئے تھے جنہوں نے پی ٹی آئی کو بدنام کرنے کے لیے توڑ پھوڑ کی۔
’مجھ پر کچھ نامعلوم لوگوں نے حملہ کیا۔ سابق گورنر شاہ فرمان کو زدوکوب کیا گیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہمارے کارکن نہیں تھے۔‘
دوسری جانب نگراں وزیر اطلاعات فیروز جمال کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے توڑ پھوڑ کا مشورہ دیا ہے اور ان کے کارکنوں نے اس پر عمل کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’کارکنوں کو اشتعال دلانے والے سابق وزراء اب غائب ہیں، جن کی وجہ سے بیچارے نوجوان جیل میں پڑے ہوئے ہیں۔ جن افراد کے خلاف ثبوت ہوں گے وہ قانون سے نہیں بچ سکیں گے۔‘
نگراں وزیر اطلاعات کے مطابق ’پی ٹی آئی قیادت اس وقت صوبے سے بھاگ چکی ہے لیکن ہم لوکیشن ٹریس کر رہے ہیں، وہ بہت جلد قانون کی گرفت میں ہوں گے۔‘

عمران خان کی گرفتاری کے بعد پشاور میں بھی مظاہرین نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پولیس نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے میں تحریک انصاف کے کارکن شامل تھے جنہیں ان کے قائدین ہدایات دے رہے تھے۔ 
 صوبائی اسمبلی کے کچھ سابق اراکین اور مقامی رہنماؤں کے نام بھی اس رپورٹ میں شامل ہیں۔
پولیس کے مطابق پشاور میں پی ٹی آئی کے پانچ سو سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ روپوش قائدین کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
31 مئی کو سی سی پی او پشاور نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مفرور رہنماؤں کی سخت نگرانی ہو رہی ہے، فی الحال کوئی شہر میں موجود نہیں ہے۔
9 اور 10 مئی کو ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت سمیت سرکاری املاک اور دکانوں کو بھی جلایا گیا تھا۔ جبکہ پولیس سے تصادم اور ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں آٹھ ہلاک اور 70 سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میں 35 پولیس کے اہلکار بھی شامل تھے۔

شیئر: