پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آڈیو لیکس سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’پہلے ججز کی تضحیک کی پھر کہا اب آڈیوز کے سچ ہونے کی تحقیق کرا لیتے ہیں۔‘
منگل کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے جوڈیشل کمیشن کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔
بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔
مزید پڑھیں
-
آڈیو لیکس کمیشن کیس، چیف جسٹس سمیت تین ججز پر حکومت کا اعتراضNode ID: 768646
سماعت کا آغاز ہوا تو درخواست گزار کا کہنا تھا کہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست مقرر نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’توہین کا معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے۔ توہین عدالت کی درخواست میں جج کو فریق نہیں بنایا جا سکتا۔ توہین عدالت کی درخواست بھی دیکھ لیں گے۔ توہین عدالت کی درخواست پر لگے اعتراضات ختم کیے جائیں۔‘
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے تو انہوں نے کہا کہ ہماری درخواست کے پہلے حصے میں انکوائری کمیشن کی تشکیل کے خلاف کیس سننے والے بینچ پر اعتراض اٹھایا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیسے مفروضے پر بات کر سکتے ہیں کہ کیس میں چیف جسٹس سمیت دو ججز کا مفاد وابستہ ہے؟ ایگزیکٹو سپریم کورٹ کے اختیارات میں مداخلت نہ کرے۔ انکوائری کمیشن بنانے سے قبل ہم سے پوچھا تک نہیں گیا۔ محض الزامات کی بنیاد پر ججز پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
اس دوران اٹارنی جنرل نے ججز کے ذاتی مفاد سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیا۔
درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اٹارنی جنرل کے دلائل
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آپ پہلے اپنی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیں۔ انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز کے بارے میں پہلے بتائیں کہ حکومت کا کیا یہ کیس ہےکہ آڈیوز اوریجنل ہیں، کیا حکومت آڈیوز کی تصدیق ہونے اور درست ہونے کا موقف اپنا رہی ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے آڈیوز کو مبینہ کہا ہے اور تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا۔
جسٹس منیب اختر نےکہا کہ کیا یہ درست ہے کہ ہیکر نے آڈیوز لیک کیں اور وزرا نے پریس کانفرنس کر کے پبلک کیا؟ وفاقی وزیر داخلہ نے آڈیوز لیکس سے متعلق پریس کانفرنس کی۔ کیا یہ ان سے متعلقہ معاملہ تھا؟ آڈیوز کی تحقیقات کیے بغیر کیا میڈیا پر ان کی تشہیر کی جا سکتی ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کا ضابطہ اخلاق کا آرٹیکل چار کہتا ہے کہ ججز کو قریبی عزیزوں اور دوستوں سے متعلق مقدمات نہیں سننے چاہئیں۔
