Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

موسم کی غیرمعمولی انگڑائیاں، ’بہار تو اب نام کی‘

شیریں رحمان کے مطابق ’پاکستان سالانہ 33 ملین ٹن پلاسٹک کا فُضلہ پیدا کر رہا ہے۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)
حالیہ چند برسوں کے دوران پاکستان کے موسمی حالات میں غیرمعمولی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔
ملک میں کہیں معمول سے ہٹ کر بارشیں برس رہی ہیں تو کہیں ایسی ژالہ باری ہوتی رہی ہے کہ جس نے فصلوں اور پھلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔
اسی طرح سیلاب، برف باری، لینڈ سلائیڈنگ، کلاؤڈ برسٹ، شہری علاقوں میں غیرمعمولی بارشیں اور گلیشیئر ٹوٹنے کے واقعات بھی تسلسل کے ساتھ پیش آتے رہے۔
مئی کے مہینے میں موسم نے اپنی روایت کے برعکس سردی کی چادر اوڑھ لی تھی اور ملک کے مختلف حصوں میں کافی زیادہ بارشیں دیکھی گئیں۔
چار دن قبل عالمی یوم ماحولیات بھی منایا گیا جس میں ’پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے‘ سے متعلق آگاہی مرکزی سلوگن رہا۔
پاکستان میں کچھ عرصے سے موسمی حالات کافی غیریقینی کے شکار نظر آتے ہیں اور کئی مرتبہ محکمہ موسمیات کے پیش گوئیوں کے برعکس موسمی حالات کا ظاہر ہونا بھی اب ایک طرح سے معمول بنتا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

’پیش گوئی کا معاملہ بالکل الگ ہے

محکمہ موسمیات اسلام آباد کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ظہیر احمد بابر کہتے ہیں کہ موسم کی پیش گوئی ایک چیز ہے جبکہ غیرمعمولی موسمی حالات کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کلائمیٹ چینج (موسمیاتی تبدیلی) اس وقت صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک بڑی حقیقت ہے۔
ڈاکٹر ظہیر احمد بابر نے بتایا کہ ’گزشتہ دو برسوں میں ہم نے شدید موسمی حالات کا مشاہدہ کیا ہے جن میں شدید بارشیں، اربن فلڈنگ، جنگلوں میں آگ، گلیشیئرز ٹوٹنے اور لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات شامل ہیں۔

ڈاکٹر ظہیر احمد بابر نے کہا کہ ’’کلائمیٹ چینج اس وقت صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک بڑی حقیقت ہے۔‘ (فوٹو: روئٹرز)

’موسم کی پیش گوئی ایک الگ چیز ہے۔ ہم معمول کے مطابق جو موسمی حالات دیکھ رہے ہوتے ہیں، اس کے مطابق پیش گوئی کی جاتی ہے۔ اب اگر موسم کے ساتھ کچھ غیرمعمولی ہو جائے تو اسے پیش گوئی سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ موسم کے نارمل پیٹرن سے ہٹ کر کچھ بھی ہو اس کا تعلق کلائمیٹ چینج سے ہوتا ہے۔
حالیہ چند ماہ میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والی غیرمعمولی ژالہ باری کے بارے میں محکمہ موسمیات اسلام آباد کے ڈائریکٹر نے کہا کہ’اس طرح کی ژالہ باری بھی شدید موسمی حالت کی علامت ہے جو براہ راست کلائمیٹ چینج سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔ اب دنیا بھر میں موسمی تغیرات اپنے پیٹرن سے ہٹ رہے ہیں۔

’موسمِ بہار تو اب نام کا ہی رہ گیا ہے

موسمیاتی تجزیہ کار جواد میمن بھی شدید موسمی حالات کو موسمیاتی تبدیلی سے متعلق قرار دیتے ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں اب تقریباً ہر موسم ہی شدید ہوتا جا رہا ہے۔ گرمی ہو تو بہت زیادہ ہوتی ہے اور سردی بھی انتہائی سطح تک پہنچ جاتی ہے، یعنی ہر موسم ریکارڈ بریکنگ کنڈیشنز لاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جو موسموں کی ترتیب تھی، وہ بھی تیزی سے بدل رہی ہے، موسم بہار تو اب نام کا ہی رہ گیا ہے۔ کئی مرتبہ ایسا بھی دیکھا گیا کہ مارچ ہی سے ہیٹ ویو شروع ہو گئی۔ پھر ان دنوں مئی اور جون، جن میں عموماً گرمی زیادہ ہوتی ہے، یہ مہینے مغربی ہواؤں کے نظام کی وجہ سے زیادہ سرد ہو گئے۔
اس سے ملتی جلتی بات مئی کے وسط میں وزیر ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمان نے بھی کی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’اس بار پاکستان میں موسم گرما موسم بہار کے بغیر ہی داخل ہو گیا ہے، بہار کا موسم پاکستان میں ختم ہو گیا۔

’دنیا بھر کے موسمی حالات بدل رہے ہیں‘

جواد میمن نے مزید کہا کہ ’دنیا بھر میں موسمی حالات یا ویدر پیٹرنز بہت زیادہ بدل چکے ہیں۔ کرہ ارض کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے اور پاکستان کلائمیٹ چینج سے متاثر ہونے والے پہلے پانچ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔

محکمہ موسمیات نے کہا ہے کہ سمندری طوفان بائپر جوائے کا رخ تبدیل ہونے کے بعد یہ شمال اور مشرق کی جانب بڑھ رہا ہے۔ (فوٹو: پریس ٹرسٹ آف انڈیا)

انہوں نے موسموں کی ترتیب میں فرق آنے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’دنیا میں موسم کا لا نینا پیٹرن(La nina)  تین چار برس سے چل رہا تھا۔ اس پیٹرن کے دوران مون سون کی بارشیں معمول یا معمول سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں جیسا کہ پچھلے برس ہم نے دیکھا۔
’اس کے بعد فروری سے مئی تک کا دورانیہ نیوٹرل پیٹرن کا تھا۔ اب جون سے لا نینا کے برعکس اثرات والا النینو پیٹرن (El Niño) شروع ہو رہا ہے۔ اس میں مون سون کی بارشیں معمول کے مطابق یا اس سے کم ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس برس مون سون کی وجہ سے سیلاب کا زیادہ خدشہ نہیں ہے۔
ہیٹ ویو کے حوالے سے جواد میمن کا کہنا تھا کہ ’ابھی تک ہیٹ ویو نہیں آئی، ہو سکتا ہے کہ جون یا جولائی میں ایک دو لہریں آئیں۔
محکمہ موسمیات نے ابھی ایسی کوئی پیش گوئی نہیں کی ہے لیکن وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے گزشتہ ماہ 15 مئی کو ممکنہ ہیٹ ویو سے بچنے کے احتیاطی تدابیر پر زور دیا تھا۔

پلاسٹک کی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی

شیریں رحمان نے پیر کو ماحولیات کے 50 ویں عالمی دن کے موقعے پر ایک بیان میں کہا تھا کہ ’پاکستان سالانہ 33 ملین ٹن پلاسٹک کا فُضلہ بنا رہا ہے۔ اگر اس پلاسٹک فضلے کو جمع کیا جائے تو دو کے ٹو پہاڑ بن سکتے ہیں۔
انہوں نے موسمیاتی تبدیلی کی وجہ بننے والی آلودگی ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ ’وزارت موسمیاتی تبدیلی نے پلاسٹک کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے ’سیون آر‘ (7Rs) کے نام سے ایک روڈ میپ بھی پیش کیا تھا۔

’بائپر جوائے‘ سمندری طوفان کا خطرہ

محکمہ موسمیات نے جمعے کو اپنی ایڈوائزی میں کہا ہے کہ سمندری طوفان بائپر جوائے کا رخ تبدیل ہونے کے بعد یہ شمال اور مشرق کی جانب بڑھ رہا ہے جو پاکستان کے مکران ساحل کی طرف آ سکتا ہے۔
پیش گوئی کے مطابق سندھ اور مکران کے ساحلی علاقے میں 13 جون کی رات سے 14 جون کی صبح تک بارش، گرج چمک اور تیز ہواؤں کا امکان ہے۔

لا نینا پیٹرن کے دوران مون سون کی بارشیں معمول یا معمول سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)

محکمہ موسمیات نے ماہی گیروں کو مشورہ دیا ہے کہ ’وہ 12 جون سے کھلے سمندر میں اس وقت تک نہ نکلیں جب تک کہ یہ نظام بحیرہ عرب کے اوپر سے گزر نہ جائے۔ اونچی لہروں کی وجہ سے ساحلی علاقے متاثر ہو سکتے ہیں۔
بائپر جوائے کا مطلب ’تباہی یا آفت‘ ہے۔ یہ نام بنگلہ دیش کی جانب سے بحیرہ عرب میں پیدا ہونے والے طوفان کے لیے تجویز کیا گیا ہے۔
اس طوفان کے بارے میں خدشہ ہے کہ یہ انڈیا کے بعض ساحلی علاقوں کے علاوہ پاکستان کے ساحل سے بھی ٹکرا سکتا ہے۔
پاکستان کے محکمہ موسمیات نے کہا ہے کہ ’ابھی اس طوفان کے درست رُخ کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔‘

شیئر: