Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یونان میں کشتی حادثہ، ’سب ایک دوسرے پر گِر رہے تھے‘ 

کشتی میں ضلع کوٹلی سے تعلق رکھنے والے 12 سے 14 رشتہ دار بھی موجود تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
یونان کے ساحل کے قریب سمندر میں ڈوبنے والی تارکینِ وطن کی کشتی کے بہت سے مسافروں کے بارے میں ابھی تک پتا نہیں چل سکا ہے۔ 
منگل اور بدھ کی درمیانی شب یونان کے جنوبی ساحل کے قریب ڈوبنے والی یہ کشتی پاکستانی، مصری اور شامی تارکین وطن کی بڑی تعداد کو اٹلی لے کر جا رہی تھی۔ 
اب تک کی اطلاعات کے مطابق سمندر سے 80 کے قریب لاشیں نکال کر کالا ماتا کی بندرگاہ تک پہنچائی گئی ہیں جبکہ زخمی افراد اس وقت ایتھنز کے ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔ 
کشتی حادثے کا شکار ہونے والے افراد کے لواحقین اس وقت یونان میں موجود ہے اور وہ اپنے پیاروں کی تلاش یا انہیں شناخت کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
ان تارکین کے پاکستان میں موجود رشتہ دار بھی اپنے پیاروں کے بارے معلومات جمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
’کشتی میں میرے 12 سے 14 رشتہ دار تھے‘ 
راجا فریاد کا تعلق پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے ضلع کوٹلی سے ہے اور وہ اس وقت یونان میں موجود ہیں۔ اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر راجا فریاد نے بتایا کہ ’اس کشتی میں میرے 12 سے 14 رشتہ دار موجود تھے۔‘
وہ اس حادثے کی خبر سن کر برطانیہ سے ایتھنز پہنچے ہیں۔ وہ کشتی میں موجود پاکستانیوں کی فہرست تیار کر رہے ہیں تاکہ ان کی شناخت کی جا سکے۔ 
راجا فریاد نے بتایا کہ ’حادثے میں کشمیر کے بچ جانے والے دو نوجوانوں سے میری ملاقات ہوئی ہے جن کے نام عدنان بشیر اور حسیب الرحمان ہیں۔‘ 
عدنان بشیر سے ملاقات کے حوالے سے راجا فریاد نے بتایا کہ ’ان کی کیفیت ویسی ہی تھی جیسی کسی بڑی مصیبت سے بچ نکلنے والے شخص کی ہوتی ہے۔ وہ بہت پریشان تھے کیونکہ یہ ان کی زندگی کا بھیانک ترین تجربہ تھا۔‘ 
راجا فریاد کے بقول عدنان نے بتایا کہ ’ہم سب کشتی میں اکٹھے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے۔ جب کشتی اُلٹنے لگی تو کشتی میں عجیب منظر تھا۔‘

 80 کے قریب لاشیں نکال کر کالاماتا کی بندرگاہ پہنچائی گئی ہیں جبکہ زخمی افراد ایتھنز کے ہسپتال میں زیرعلاج ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’سب ایک دوسرے پر گِر رہے تھے۔ اس وقت جو افراتفری تھی، پھر مجھے تو ہوش ہی نہیں رہا۔ اب یہاں پہنچ کر پتا چلا ہے کہ ہوا کیا ہے۔‘ 
پاکستانی نوجوان یورپی ممالک میں داخلے کے لیے اس قدر پُرخطر طریقہ کیوں استعمال کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں راجا فریاد نے کہا کہ ’دیکھیے وجہ آپ بھی جانتے ہیں۔‘
’ملک میں بے روزگاری ہے اور معاشی مواقع نہیں ہیں۔ اس لیے نوجوان بیرون ملک بھاگتے ہیں اور گھر والے بھی اپنے بچوں کو یہ خطرہ مول لینے کی اجازت دے دیتے ہیں۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’اب تک کے اندازوں کے مطابق تارکین وطن کی کشتی میں 25 سے 30 نوجوانوں کا تعلق پاکستان کے زیرانتظام کشمیر سے تھا۔‘ 
’بھتیجے کی ابھی تک کوئی خبر نہیں‘ 
ڈاکٹر اشفاق کا تعلق بھی پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے ضلع کوٹلی سے ہے۔ ان کے 23 سالہ بھتیجے محسن بھی اس کشتی کے مسافروں میں شامل تھے اور ابھی تک ان کے بارے میں کچھ پتا نہیں چل سکا ہے۔ 
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر اشفاق نے بتایا کہ ’میرا 23 سالہ بھتیجا 6 سات ماہ سے لیبیا میں تھا۔‘ 

 ’اندازے کے مطابق تارکین وطن کی کشتی میں 25 سے 30 نوجوانوں کا تعلق پاکستان کے زیرانتظام کشمیر سے تھا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ ’محسن فاروق اپنے خاندان کے ساتھ پنجاب کے ضلع گجرات میں رہتا تھا۔ وہیں سے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ اس کا لیبیا کے راستے اٹلی جانے کا پروگرام بنا اور وہ چلا گیا۔‘ 
’ہم سب محسن کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک اس کی کوئی خبر نہیں ہے۔‘ 
ڈاکٹر اشفاق کے بقول ان کے بھتیجے نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ وہ بھی پاکستانی نوجوانوں کے مختلف راستوں سے بیرون ملک جانے کے رجحان کو بے روزگاری سے جُڑا ہوا معاملہ سمجھتے ہیں۔ 
’یہاں جو حالات ہیں، وہ آپ کے سامنے ہیں۔ بے روزگاری بہت زیادہ ہے۔ بچے رزق کی تلاش میں دوسرے ممالک کی طرف جا رہے ہیں۔‘ 
یونان کے شہروں میں بڑے احتجاجی مظاہرے 
تارکین وطن کی کشتی کے حادثے کے بعد جمعرات کو یونان کے دارالحکومت ایتھنز سمیت ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں منعقد ہوئیں۔ 

ضلع کوٹلی کے 23 سالہ محسن بھی اس کشتی میں سوار تھے اور ابھی تک ان کے بارے میں کچھ پتا نہیں چل سکا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

مظاہرین یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ ’تارکین کے قاتلوں کو سزا دی جائے۔‘ انہوں نے اپنے ہاتھوں میں جو بینرز پکڑ رکھے تھے ان پر بھی ’تارکین کے قاتل‘ کے الفاظ درج تھے۔ 
ایتھنز میں نکالی گئی ایک ریلی میں شامل مظاہرین پولیس کے خلاف بھی نعرے لگا رہے تھے۔ وہ یہ جملہ دہرا رہے تھے کہ ’پوری دنیا پولیس سے نفرت کرتی ہے۔‘ 
یونان کی عبوری حکومت نے بدھ کو اس حادثے کے بعد ملک میں تین روزہ سوگ کا اعلان کر کے تمام تقریبات منسوخ کر دی تھیں۔ 
اس وقت یونان میں بین الاقوامی تنظیم ریڈکراس کی ٹیمیں بھی موجود ہیں جو تارکین کے اہل خانہ سے رابطوں کے لیے سہولت فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ 

شیئر: