Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹیکس کون دے رہا ہے؟ ماریہ میمن کا کالم

جس طرح متوسط طبقے کو نیچے کی طرف دھکیلا گیا ہے اس کے بعد حکومتی پالیسیوں کی پذیرائی ممکن ہی نہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
وفاقی بجٹ ہمیشہ ہی الفاظ کا گورگھ دھندہ ہوتا ہے اس لیے ہمیشہ ہی بجٹ پر مختلف آرا سامنے آ جاتی ہیں۔ اس دفعہ البتہ آئی ایم ایف سے متوقع مگر نہ ہو رہی ڈیل کے بارے میں بجٹ سے پہلے اور بعد میں قیاس آرائیاں جاری ہیں۔
عوام کے لیے بجٹ میں ریلیف تلاش کرنے کے لیے کوئی خاص دوربین چاہیے ہو گی کیونکہ بظاہر تو ان کی زندگیوں میں معاشی حوالے سے کوئی سکون نظر نہیں آ رہا۔
تنخواہ دار طبقے کو البتہ کسی امید کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے اوپر ایک کے بعد ایک ٹیکس کا نفاذ ہو رہا ہے۔ پہلے سے ٹیکس دینے والے، بچوں کی فیس اور بجلی گیس کے بل کے لیے متفکر طبقہ مزید ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبایا جا رہا ہے۔ سوال اس صورتحال میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں ٹیکس دے کون رہا ہے؟ 
اس کا جواب بھی کئی طرح کے اعداد و شمار میں دیا جا سکتا ہے جن کے مطابق ملک میں انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی بڑے ٹیکسز ہیں۔ آخری دو بالواسطہ اکٹھے ہوتے ہیں مگر ان کا بوجھ صارفین کو اٹھانا پڑتا ہے، جبکہ انکم ٹیکس براہ راست وصول کیا جاتا ہے۔
انکم ٹیکس مختلف اندازوں کے مطابق سب سے زیادہ کاروباری طبقے سے وصول کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد باری آتی ہے تنخواہ دار طبقے کی، جن کی آمدنی سے براہ راست ہی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔ یہاں پہ معاملہ کافی دلچسپ ہو جاتا ہے۔ 
کاروباری طبقہ ملک کی معیشت کی اساس ہوتا ہے۔ وہ روزگار مہیا کرتے ہیں، برآمدات کی صورت میں زرِمبادلہ کماتے ہیں اور ملک کی معیشت کا پیہہ چلاتے ہیں۔ اس لیے ٹیکس دیتے وقت ان کی طرف سے سرکار کو خوب ٹف ٹائم دیا جاتا ہے۔ اخبارات میں اشتہارت اور اپیلیں چھپتی ہیں، تاجر تنظیمیں بیان دیتی ہیں اور آخر میں عدالتوں تک کیس پہنچتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ تاجر طبقہ سرکار سے مختلف مدوں میں مراعات بھی حاصل کرتا ہے۔ وہی مراعات جن پر آئی ایم ایف کو اعتراض بھی ہوتا ہے مگر ان میں کمی لانا سرکار کے لیے لوہے کے چنے کے برابر ہوتا ہے۔

تنخواہ دار اور مخصوص آمدنی والا طبقہ حکومت کا سب سے آسان ہدف ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پچھلے دور حکومت میں شوگر ملوں کی انکوائری رپورٹ کے مطابق شوگر ملوں نے جتنا ٹیکس دیا اس کے برابر رقم سبسڈی کی مد میں لے لی۔
باقی شعبوں میں بھی اسی طرح کی صورتحال ہے۔ ایک طرف ٹیکس ہے اور دوسری طرف مراعات اور درمیان میں سرکار حیلوں بہانوں سے ٹیکس وصول کرتی ہے۔ بڑا کاروباری طبقہ ویسے ہی اعلٰی عہدوں تک رسائی رکھتا ہے جبکہ مارکیٹوں میں ہونے والا اربوں روپے کا کاروبار زیادہ تر دستایزات سے بالا بالا ہوتا ہے۔ ان سے ٹیکس وصول کرنے جانے والے اکثر اپنے آپ کو بچا کر آنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ 
اب آتے ہیں متوسط طبقے کی طرف۔ تنخواہ دار اور مخصوص آمدنی والا طبقہ حکومت کا سب سے آسان ہدف ہے۔ ان کی آمدنی ویسے ہی مالیاتی دائرے کے اندر ہوتی ہے۔ ٹیکس دیتے دیتے وہ سب سے آسان شکار بن جاتے ہیں۔ ایک ایک دو دو فیصد کر کے ان کی آمدنی کا نمایاں حصہ ٹیکس میں چلا جاتا ہے۔ اگر کبھی آجروں کی طرف سے تنخواہ بڑھائی بھی جائے تو یہ اضافہ ایک طرف مہنگائی کی نظر ہو جاتا ہے اور رہی سہی کسر ٹیکسوں سے نکل جاتی ہے۔ یہی طبقہ تعداد میں زیادہ مگر حکومت کے لیے نہ ان کی کوئی انجمن ہے اور نہ ہی یہ اخباروں میں اشہتارات چھپواتے ہیں۔ 
ملک میں اس وقت کئی طرح کے بحران ہیں۔ ان میں کئی فوری نوعیت کے ہیں مگر ملک کے مسقتبل کے لیے سب سے سنگین بحران پیشہ ور افرادی قوت کا انخلا ہے۔ مقررہ آمدنی والا یہ طبقہ اب اپنی صلاحیتوں کے حساب سے جو وسائل وصول کرتا ہے وہ روز بروز سکڑتے جا رہے ہیں۔ ایک طرف مہنگائی اور دوسری طرف ٹیکس اور پھر ان ٹیکسوں کے بدلے وہ ارد گرد بدامنی، اضطراب اور سرکاری سہولتوں کا فقدان دیکھ کر سوچتا ہے کہ اگر محنت ہی کرنی ہے تو پھر ایسے جگہ کی جائے جہاں پر اس کی قدر بھی ہو اور اگر ٹیکس پر ٹیکس دینا ہے تو ایسے ملک میں دیا جائے جہاں تعلیم یافتہ افراد کی قدر بھی ہو اور شہری سہولتوں میں بھی بہتری ہو۔

کاروباری طبقہ ملک کی معیشت کی اساس ہوتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس امر کو بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ باشعور لوگ اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوں مگر اگر اردگرد دیکھا جائے تو شاید ان کو الزام دینا مشکل ہو۔ اس حکومت کے دور میں جس طرح متوسط طبقے کو نیچے کی طرف دھکیلا گیا ہے اس کے بعد اگر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ان کی پالیسیوں کی کوئی پذیرائی چھوڑ قبولیت بھی ہو تو اسے خوش فہمی اور خام خیالی کے علاوہ کچھ اور نہیں کہا جا سکتا۔

شیئر: