پاکستان کی سپریم کورٹ نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل پر فوری طور پر پر حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا مسترد کر دی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’فوج کی تحویل میں دیے گئے تمام افراد کو اہل خانہ سے ملنے کی اجازت ہونی چاہیے اور انہیں کھانے پینے، کتابوں اور دیگر سامان کی ترسیل بھی یقینی بنائی جانی چاہیے۔‘
مزید پڑھیں
-
تنصیبات پر حملے: ’6 مقدمات کا ٹرائل آرمی کورٹ میں ہو سکتا ہے‘Node ID: 767601
-
عمران خان کا فوجی عدالت میں ٹرائل کیا جائے یا نہیں، حکومت تقسیمNode ID: 769621
پیر کو سماعت کے اختتام سے قبل چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اٹارنی جنرل صاحب سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کچھ یقین دہانیاں مانگی ہیں، آپ بتائیں آپ کے پاس اس حوالے سے کیا ہدایات ہیں؟‘
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی تک فوج کی تحویل میں موجود 102 افراد سے تحقیقات کا عمل جاری ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تحقیقات کے دوران ان 102 افراد کی تعداد کم بھی ہو سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اگر تحقیقات میں ان 102 افراد میں سے کوئی ملٹری کورٹس کے دائرہ اختیار میں نہ آتا ہوا تو ان کے مقدمات عام عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ ’اٹارنی جنرل صاحب بتائیں پِک اینڈ چوز کیوں ہو رہی ہے؟‘ اٹارنی جنرل وضاحت دی کہ کوئی پِک اینڈ چوز نہیں ہو رہی، میں وفاقی حکومت کی ہدایات کے تحت کہہ رہا ہوں کہ صرف انہی لوگوں کے خلاف کارروائی ہوگی جو ممنوعہ علاقوں میں داخل ہوئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ فوج کی زیر حراست میں موجود افراد سے ان کے اہلخانہ سے ملاقات کیوں نہیں کرائی جا رہی، نو مئی کے واقعے کو اتنے ہفتے ہو گئے۔
اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوج کے زیر حراست افراد کی اہل خانہ ملاقات بارے حکومت سے ہدایات لے کر بتائیں۔
’ہمیں کچھ معلومات مل رہی ہیں کہ زیرِحراست افراد کو کھانا اور کتابیں فراہم نہیں کی جا رہیں، ہمیں زیرِحراست افراد کے نام مکمل تفصیلات کے ساتھ فراہم کے جائیں۔‘
اس سے قبل سات رکنی بینچ ٹوٹنے کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت دوبارہ شروع کی تھی۔
بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عاٸشہ ملک شامل تھے۔
آئین میں سویلین اور فوجی افسران کی تقسیم نہیں کی گئی: وکیل سلمان اکرم راجہ
درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’جنید رزاق کے بیٹے کا معاملہ ملٹری کورٹ میں ہے اور میں ان کی طرف سے عدالت میں پیش ہوا ہوں۔ کیا فوجی عدالت کا ٹرائل کرنے والے کو جوڈیشل اختیارات ہوتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے، ٹرائل صرف آرٹیکل 175 کے تحت تعینات کیا گیا جج کر سکتا ہے۔‘
جسٹس منیب نے کہا کہ کیا آپ کی دلیل یہ ہے کہ فوجی اہلکاروں کا بھی کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آئین میں سویلین اور فوجی افسران کی تقسیم نہیں کی گئی۔ مقدمہ ایک عدالت میں چلے یا دوسری میں، فیئر ٹرائل سمیت دیگر حقوق متاثر نہیں ہوتے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک کیس میں یہ اصول طے کر چکی ہے کہ جوڈیشل امور جوڈیشری ہی چلا سکتی ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ملٹری کورٹ ایک متوازی نظام ہے جسے عدالت نہیں کہہ سکتے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’جی میں یہی کہہ رہا ہوں کیونکہ وہاں سویلین کو بنیادی حقوق نہیں ملتے۔ آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ٹرائل ہوتا ہے اور سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ڈسپلن کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں ہے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ ایک اچھا پوائنٹ ہے۔ جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ آپ سویلین کی حد تک ہی ٹرائل چیلنج کر رہے ہیں نا؟ آپ آرمی آفیشل کے ٹرائل تو چیلنج نہیں کر رہے؟
