انہوں نے رواں سال کے آغاز میں امریکی فضائی حدود میں چین کے مبینہ جاسوسی غبارے کے گرائے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’بدقسمتی سے کچھ غیرمتوقع واقعات جیسا کہ غبارے کا تھا، کے باعث دونوں ملکوں کے سربراہان کی ملاقات میں طے پانے والے امور پر عمل درآمد کرنے میں مسائل کا سامنا ہوا۔‘
خیال رہے کہ امریکہ اور چین کے صدور کی ملاقات گزشتہ برس ایک بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر ہوئی تھی۔
دوسری جانب امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے اس موقع پر کہا کہ واشنگٹن اور بیجنگ کو مخصوص اقتصادی طریقوں کے بارے میں خدشات پر ’براہ راست‘ بات چیت کرنی چاہیے۔
انہوں نے دو بڑی معیشتوں کے درمیان ناہموار تعلقات کے باوجود زیادہ تعاون پر زور دیا۔
امریکی وزیر خزانہ بیجنگ کے چار روزہ دورے پر ہیں۔
امریکہ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تجارت کے شعبے میں تناؤ کو کم کرنے کی کوشش میں ہے۔
چینی نائب وزیراعظم ہی لیفنگ سے ملاقات میں امریکی وزیر خزانہ نے گزشتہ سال دو طرفہ تجارت کے ریکارڈ کرنے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ملک کس قدر جڑے ہوئے ہیں۔
امریکی وزیر خزانہ نے چین کے نائب وزیراعظم سے گفتگو میں کہا کہ ’ہماری فرموں کے لیے تجارت اور سرمایہ کاری مزید بڑھانے کے لیے کافی گنجائش موجود ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’جہاں ہمیں مخصوص اقتصادی طریقوں کے بارے میں خدشات ہیں، ہمیں ان سے براہ راست بات چیت کرنی چاہیے اور کریں گے۔‘
ییلن اپنے دورے میں ان شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیتی رہی ہیں جہاں دونوں طاقتوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ ساتھ ہی امریکہ کے چین سے اپنی معیشت کو ’ڈی رسک‘ کرنے کے اقدام کا دفاع بھی کرتے ہیں جسے واشنگٹن امریکی کاروبار کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کے طور پر دیکھتا ہے۔
انہوں نے چین میں ماہرین کی ایک گول میز کانفرنس کو بتایا کہ موسمیاتی فنانسنگ میں دونوں طاقتوں کے درمیان تعاون ’اہم‘ ہے۔
’دنیا کے دو سب سے بڑے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کرنے والے اور قابل تجدید توانائی میں سب سے بڑے سرمایہ کاروں کے طور پر، ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے اور دونوں کے پاس صلاحیت بھی ہے کہ ہم راہنمائی کریں۔‘