Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی خاتون جو آئس لینڈ میں سائیکلنگ کا خواب پورا کر رہی ہیں

آئس لینڈ کی رنگ روڈ سے سائیکل چلانے کی کوشش کا آغاز کیا ہے( فوٹو: عرب نیوز)
سعودی خاتون سائیکلسٹ یاسمین راشد نے مہینوں پہلے خود کو ایک خواب میں دیکھا جہاں چاروں طرف آبشاریں، سرسبز وشاداب علاقے، اونچے پہاڑی سلسلے ہیں اگرچہ یہ ایک مہم وژن تھا لیکن وہ جانتی تھیں کہ یہ آئس لینڈ ہے۔
اس کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے آئس لینڈ کی رنگ روڈ یا روٹ ون کے ارد گرد سائیکل چلانے کی مہم کا آغاز کیا۔
یہ رنگ روڈ تقریباً ایک ہزار 400 کلومیٹر طویل ہے جو سیاحوں میں بہت مقبول ٹریک ہے۔
عرب نیوز کے مطابق یہ زندگی بھر کا سفر ہے اور اگر وہ اسے مکمل کرتی ہیں تو وہ ایسا کرنے والی پہلی عرب اور سعودی خاتون بن جائیں گی۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’اگر میرے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہوتی تو میں کیا کرتی؟ یہی جو سامنے آیا۔ میں ایک حقیقی مہم جوئی پر جانے کے لیے وقت نکالنا چاہتی تھی۔ ایک مشکل مہم  جو مجھے آگے بڑھنے پر مجبور کرے گی۔‘
وہ ایک سیلف سپورٹڈ ایکسپلورر کے طور پر وہ تقریباً 32 کلو کیمپنگ گیئر، پانی اور سفر کے لیے دیگر ضروری سامان کے ساتھ سائیکل چلا رہی ہیں۔
یاسمین ادریس رہائش کے لیے کیمپ اور راستے میں آنے والے ہوٹلوں پر رک کر تازہ دم ہونے کا  کا ارادہ رکھتی ہیں۔
اگلے تین ہفتوں تک بشمول چار آرام کے دن، وہ روزانہ اوسطاً 80 کلومیٹر سائیکلنگ کریں گی۔
’آئس لینڈ کی رنگ روڈ یا روٹ ون زیادہ تر فلیٹ ہے، یہاں کوئی رکاوٹیں نہیں ہیں اور کوئی درخت بھی نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں ہوا بہت تیز ہے اور اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘

سپین، یورپ کے کچھ حصوں اور جنوب مشرقی ایشیا میں ٹریک کر چکی ہیں۔(فوٹو: عرب نیوز)

یاسمین ادریس جو اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر سفر کی اپ ڈیٹس شیئر کر رہی ہیں، نے پہلی پوسٹ میں لکھا کہ وہ 24-48 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں کے ساتھ سڑک پر ہیں۔
ایک نو آموز بائیکر کے طور پر نورڈک لینڈ سکیپ کراس کنٹری ایکسپلوریشن کے لیے بہترین دروازے کے طور پر کام کرتا ہے۔
یاسمین ادریس نے سال کا پہلا نصف، ہفتے میں چار بار سائیکلنگ کوچ کے ساتھ ٹریننگ سیشن اور ہفتے میں تین بار تربیت کے ساتھ مہم جوئی کی تیاری میں گزارا۔
ٹریننگ نے انہیں سائیکل چلانے کی نئی مہارتیں فراہم کیں جیسے کلپنگ، ایک ہاتھ سے سواری اور تیزی سے آگے بڑھنا شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ وہ چیزیں ہیں جو سائیکل چلانے والے کے لیے ضروری ہیں اور ان کو سیکھنا چاہیے۔‘
یاسمین ادریس اس سے قبل سپین، یورپ کے کچھ حصوں اور جنوب مشرقی ایشیا میں سائیکلنگ کر چکی ہیں۔

ٹریننگ نے انہیں سائیکل چلانے کی نئی مہارتیں فراہم کیں (فوٹو: عرب نیوز)

انہوں نے اس تجربے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت جب کچھ بدل جاتا ہے۔ چاہے یہ ہماری بقا کی جبلت ہے یا کوئی روحانی چیز،  آپ کو کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے جسے میں واقعی میں نام نہیں دے سکتی جو اس کو سنبھال لے۔ یہ وہ انعام ہے جو آپ اپنے آپ کو اس قسم کی چیزوں میں ڈالنے کے لیے جیتتے ہیں‘۔
ایسی متعدد سعودی خواتین ہیں جنہوں نے فطرت میں چیلنجنگ کاوشیں کیں۔ مونا شہاب نے 2019 میں دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کی اور پھر اسےمصر میں پسماندہ بچوں کے لیے رقم جمع کرنے کے لیے استعمال کیا۔
 مریم صالح بن لادن نے 2016 میں شامی یتیم بچوں کی حالت زار کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے انگلش چینل عبور کیا۔
یاسمین ادریسں نے کہا کہ ’ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج ایک سعودی خاتون کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اگر آپ حکومت اور کاروبار سے لے کر سروس انڈسٹری تک ہر چیز کے بارے میں سوچتے ہیں تو خواتین ہر جگہ سب سے آگے ہیں اور میرے خیال میں عرب خواتین کے لیے شائین کرنے کا اس سے بہتر وقت کبھی نہیں تھا‘۔
اپنے خوابوں کے تعاقب کے راستے پر چلتے ہوئے یاسمین ادریس کا نورڈک رنگ روڈ ایڈونچر دوسروں کو اپنے ذاتی اہداف کے حصول کی ترغیب دینا ہے۔ یہ خود کی دیکھ بھال کرنے والے ہوائی جہاز کی تشبیہ کی طرح ہے۔ دوسروں کی مدد کرنے سے پہلے آپ کو اپنا آکسیجن ماسک پہننا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ’ مجھے لگتا ہے کہ میں جان بوجھ کر یہ کام بغیر کسی وجہ کے کر رہی ہوں تاکہ لوگوں کو اپنے لیے کام کرنے کی ترغیب دی جا سکے۔ میں صرف یہ دیکھ کر پرجوش ہوں کہ وہاں میرا کیا انتظار کر رہا ہے۔میں جانتی ہوں کہ مجھے کچھ سیکھنا ہے جس کے بارے میں مجھے ایک خاص طریقے سے بڑھنا ہے جس کا پتہ مجھے سفر کے بعد ہی ملے گا‘۔

شیئر: